ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
نکاح ِبیوگان : دُوسری بڑی کوتاہی جو ہمارے معاشرہ میں رائج ہے اور جس سے بہت زیادہ اَولیاء و ذمہ داران اعراض کرتے ہیں وہ بیوگان اور مطلقہ عورتوں کا دُوسرا نکاح نہ کرنا ہے، اِس میں بھی اِحتیاط لازم ہے قرآن کریم میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مطلقہ عورتیں اگر نکاح کرنا چاہیں تو اُنہیں اِس عمل سے نہ روکو۔ (سورہ بقرہ ٢٣٢) اِس لیے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اَگر عذر نہ ہو اور ضرورت پائی جائے تو بیوگان کے نکاح میں خاندانی عرف ورواج کا خیال نہ کرتے ہوئے شرعی حکم کے مطابق پیش قدمی کی جائے، اِس طرح نہ صرف یہ کہ ایک بے سہارا عورت کی کفالت کا اِنتظام ہوگا بلکہ سنت کے احیاء کا ثواب ملے گا اور غیروں کو اِسلامی عائلی قوانین میں دَخل اَندازی کا موقع ختم ہوجائے گا۔ نکاح کی تقریب : تقریب ِنکاح کا اِنعقاد شریعت کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ دینی و دُنیوی برکتوں سے سرفراز ہوا جاسکے، اِس بارے میں درجِ ذیل ہدایتوں کو سامنے رکھا جائے۔ (١) ایک عمومی ضابطہ تو یہ ہے کہ پوری تقریب میں اِسراف ِبے جا اور فضول خرچیوں سے ہر ممکن اِحتراز کیا جائے، آنحضرت ۖ کا اِرشادِ گرامی ہے : سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔'' (مشکوة شریف) (٢) نکاح کی مجلس برسر عام منعقد کی جائے، اِرشاد نبوی ۖہے : نکاح کا اِعلان کرو۔ ( مشکوة شریف ٢٦٨) جس نکاح کا عام اعلان نہ ہو وہ اگر شرائط کے مطابق ہو تو اگرچہ منعقد ہوجاتا ہے لیکن اِس طرح کے نکاحوں میں بہت سے مفاسد ہیں جن سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ (٣) نکاح مسجد میں کیا جائے۔ آنحضرت ۖ کا اِرشاد ہے '' نکاح مساجد میں کیا کرو '' (مشکوة شریف ٢ ٢٦٨) حقیقت یہ ہے کہ مسجد میں نکاح بہت سی خرابیوں کو روکنے کا سبب ہے اور عبادت ہونے کی بنا پر اِس کا مسجد میں ہی اَنجام پانا زیادہ مناسب ہے۔ (٤) بہتر ہے کہ اِس مبارک تقریب کا اِنعقاد جمعہ کے دِن کیا جائے ۔( دُر مختار)