ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
''قبیلہ جمح کا ایک شخص عمیر بن وہب تھا، قریش نے اُس کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی تعداد کا اَندازہ لگائے، عمیر مسلمانوں کے کیمپ کی طرف گھوڑا دوڑاتا ہوا گزرا اور تعداد کا اَندازہ لگالیا پھر آس پاس گھوڑا دوڑا کر دیکھا کہ شاید کسی دُوسرے مقام پر مسلمانوں نے کمین گاہ بنا رکھا ہو مگر پورا میدان صاف تھا۔ عمیر واپس آیا اُس نے رپورٹ دی کہ تعداد زیادہ نہیں ہے، کم و بیش تین سو آدمی ہیں، اُن کی حفاظت کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے، یہ بھی خطرہ نہیں ہے کہ کہیں سے کمک پہنچ جائے گی، سامان بھی پورا نہیں ہے صرف تلواریں لیے ہوئے ہیں۔ مگر صاحبو ! کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے مصائب کے لشکر ١ اُن کے ساتھ ہیں، یثرب کی اُونٹنیاں جن سے پانی کچھوایا جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی پکھال ٢ نہیں بلکہ موت کے اَنبار لادے ہوئے ہیں، یہ مسلمان خاموش ہیں مگر اُن کی صورتوں سے وحشت برستی ہے معلوم ہوتا ہے سب کچھ چھوڑ کر یہاں قربان ہونے کے لیے آئے ہیں بال بچوں میں واپس جانے کا تصور بھی اُن کو نہیں ہے، یقینی بات ہے کہ اُن میں کوئی ایک بھی مارے بغیر نہیں مرے گا۔ صاحبو ! غور کرو اَگر وہ ایک ایک کو مار کر ہی مرے تو سوچو پھر تمہاری زندگی کیا ہوگی، تم میں ہی کے کتنے عزیز ختم ہوچکے ہوں گے۔ حکیم بن حزام ٣ قریش کے سنجیدہ مزاج سردار تھے، وہ اِس تقریر سے متاثر ہوئے ١ البلایا۔ تحمل المنایا ( اِبن سعد و اِبن اسحاق) قال فی السیرة الحلبیہ۔ البلایا فی الاصل النوق تبرق علی قبرصاحبہا فلا تعلف ولا تسعے حتی تموت الخ ( ج ٢ ص ١٧٤ ) ٢ کھال کا بڑا تھیلا جس میں پانی بھر کر جانورکو ڈالتے ہیں۔ ٣ بعد میں اِسلام سے مشرف ہوئے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ۖ نے فرمادیا تھا کہ بیت المال سے جو عطیہ دیا جاتا ہے اگر وہ بلا طلب اور بلا توقع اِستغنائِ نفس کے ساتھ ملے تو اُس میں برکت ہوتی ہے(باقی حاشیہ اَگلے صفحہ پر)