ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
(مَاجَزَآئُ مَنْ اَرَادَ بِاَھْلِکَ سُوْئً اِلَّا اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَاب اَلِیْم)(سُورہ یوسف : ٢٥) ''اور کچھ سزا نہیں ایسے شخص کی جو چاہے تیرے گھر میں برائی مگر یہی کہ قید میں ڈالا جائے یا درناک عذاب دیا جائے۔'' ُ آپ نے تہمت کی نفی کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا : (ھِیَ رَا وَدَتْنِیْ عَنْ نَفْسِیْ )(سُورہ یوسف : ٢٦) ''اِسی نے خواہش کی مجھ سے '' عزیز ِ مصر کی بیوی کے خاندان میں سے ایک شاہد نے یہ معاملہ نبٹاتے ہوئے کہا کہ قمیص دیکھ لی جائے اگر وہ سامنے سے پھٹی ہوئی ہے تو عورت سچی ہے اور آپ جھوٹے ہیں اوراگر قمیص پشت کی جانب سے پھٹی ہوئی ہے تو آپ سچے ہیں اور عورت جھوٹی ہے۔ جب عزیز ِ مصر نے قمیص کو دیکھا کہ وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو اُسے یقین ہو گیا کہ اُس کی بیوی جھوٹ بول رہی ہے اور یوسف علیہ السلام تہمت سے بری ہیں۔ تو عزیز ِ مصر نے آپ سے درخواست کی کہ اِس واقعہ کو راز میں رکھیے اور اِس کا کسی سے ذکر نہ کیجئے اور اپنی بیوی سے کہنے لگا : ( اِسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ ) (سُورہ یوسف : ٢٩) ''عورت ! تو بخشوا اپنے گناہ، بے شک توہی گناہگار تھی۔'' اِس واقعہ کا شہر میں چرچا ہوا، عورتوں نے بھی اِس واقعہ کو سنا اور اُنہوں نے اپنا موضوعِ سخن ہی حضرت ذُلیخا کا یہ فعل بنالیا اور ہر وقت عزیز ِ مصر کی بیوی کا مذاق اُڑانے لگیں۔ لہٰذا عاجز آکر عزیز ِ مصر کی بیوی نے سوچا کہ اگر وہ کسی تدبیر سے اِن عورتوں کو یوسف علیہ السلام کا دیدار کرادیں تووہ مجھے معذور سمجھیں گی۔ اپنی اِس تدبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عزیز مصر کی بیوی نے اُن عورتوں کو محل میں بلایا اور اُنہیں نرم و گداز بستر پر بٹھا کر ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک چھری دے دی اور سامنے پھل رکھ دیے تاکہ وہ چھری سے پھل کاٹ سکیں پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو بلالیا جب اُنہوںنے آپ کے