Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 5

90 - 508
  ١   لقولہ علیہ السلام من حلف بطلاق اوعتاق وقال ان شاء اللہ تعالیٰ متصلا بہ لا حنث علیہ 
  ٢   ولانہ اتی بصورة الشرط فیکون تعلیقا من ھٰذا الوجہ وانہ اعدام قبل الشرط والشرط لا یعلم ھٰھنا فیکون اعداما من الاصل ولہذا یشترط ان یکون متصلاً بہ بمنزلة سائر الشروط  (١٨٩٣) ولو سکت یثبت حکم الکلام الاول) ١   فیکون الاستثناء اوذکرالشرط بعدہ رجوعاً عن الاول 

 ترجمہ:    ١   حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کسی نے طلاق یا آزادگی کی قسم کھائی اور متصلا انشاء اللہ کہا تو اس پر حانث ہو نا نہیں ہے ۔
تشریح  :کسی نے طلاق دینے کے ساتھ ہی متصلا ان شاء اللہ کہا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔  
وجہ  (١) ان شاء اللہ کے معنی ہیں اگر اللہ چاہے۔اور اللہ کے چاہنے کا پتہ نہیں اس لئے طلاق واقع نہیں ہوگی (٢) حدیث میں ہے جسکو صاحب ہدایہ نے پیش کی ہے  ۔عن ابن عمر یبلغ بہ النبی قال من حلف علی یمین فقال ان شاء اللہ فقد استثنی ۔(ابو داؤد شریف ، باب الاستثناء فی الیمین، ص ١٠٨ ،نمبر ٣٢٦١ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الاستثناء فی الیمین ،ص ٢٧٩ ،نمبر ١٥٣١ ابن ماجہ شریف،نمبر ٢١٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ متصلا کہے تو اس کام سے حانث نہیں ہوگا۔(٣)  اور یہی حال طلاق کا ہے۔عن ابن عباس ان رسول اللہ قال من قال لامرأتہ انت طالق ان شاء اللہ او غلامہ انت حر ان شاء اللہ او علیہ المشی الی بیت اللہ ان شاء اللہ فلا شیء علیہ۔ (سنن للبیہقی ، باب الاستثناء فی الطلاق والعتق والنذر کھو فی الایمان لا یخالفھا ،ج سابع ،ص٥٩٣، نمبر ١٥١٢٣) اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ کہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
 ترجمہ:  ٢  اور اس لئے کہ شرط کی شکل میں لایا اس لئے طریقے کی تعلیق ہو گی ، اور شرط سے پہلے تعلیق کو منعدم کرنا ہے اور شرط یہاں نہیں جانی جا سکتی اس لئے اصل ہی سے معدوم ہو جائے گی اور اسی لئے شرط لگائی جاتی ہے کہ کلام کے ساتھ متصل ہو تمام شرطوں کی طرح ۔ 
 تشریح:  یہ دلیل عقلی ہے ، کہ اس عبارت میں  ان شاء اللہ کے ذریعہ تعلیق کی صورت میں کلام لایا ہے ، اور تعلیق کا قاعدہ یہ ہے کہ شرط پائے جانے سے پہلے گویا کہ کلام ہی نہیں ہے ، اور یہاں اللہ  کی مرضی کا پتہ نہیں ہے کہ کیا ہے اس لئے اصل ہی سے کلام معدوم ہو جائے گا ، یہی وجہ ہے کہ اور کلام شرطیہ کی طرح ان شاء اللہ کو کلام کے ساتھ متصل کر کے بولنا ضروری ہے ۔
 ترجمہ:  (١٨٩٣)  اور اگر انت طالق کے بعد چپ رہا تو پہلے کلام کا حکم ثابت ہو جائے گا ۔ 
 ترجمہ:  ١  اس لئے کہ اس کے بعد استثناء اور شرط کا ذکر کرنا پہلے کلام سے رجوع کرنا ہو گا ۔ 
 تشریح:  انت طالق کہا اس کے بعد تھوڑی دیر چپ رہا اور اس کے بعد ان شاء اللہ کہا ، تو ان شاء اللہ بیکار جائے گا اور پہلے جو کلام 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بابُ تفویض الطلاق 8 1
3 فصل فی الاختیار 8 2
4 تفویض طلاق کا بیان 8 3
5 فصل فے الامر بالید 22 3
6 فصل فی المشیۃ 35 3
7 باب الایمان فی الطلاق 61 1
9 فصل فی الاستثناء 89 7
10 باب طلاق المریض 94 1
11 باب الرجعة 114 1
12 فصل فیما تحل بہ المطلقة 142 11
14 باب الایلاء 156 1
15 باب الخلع 177 1
16 باب الظہار 207 1
17 فصل فی الکفارة 220 16
18 با ب اللعان 251 1
19 باب العنین وغیرہ 280 1
20 اسباب فسخ نکاح 295 1
21 فسخ نکاح کے اسباب 295 20
22 باب العدة 324 1
23 فصل فی الحداد 357 22
24 سوگ منانے کا بیان 357 23
25 باب ثبوت النسب 379 1
26 ثبوت نسب کا بیان 379 25
27 باب حضانة الولد ومن احق بہ 408 1
28 حضانت کا بیان 408 27
29 فصل بچے کو باہر لیجانے کے بیان میں 424 27
30 باب النفقة 428 1
31 فصل فی نفقة الزوجة علی الغائب 455 30
32 فصل کس طرح کا گھر ہو 455 30
33 فصل فی نفقة المطلقة 467 30
34 فصل مطلقہ عورت کا نفقہ 467 30
35 فصل فی نفقة الاولاد الصغار 475 30
36 فصل چھوٹے بچوں کا نفقہ 475 30
37 فصل فی من یجب النفقة و من لا یجب 483 30
38 فصل والدین کا نفقہ 483 30
40 فصل فی نفقة المملوک 504 30
Flag Counter