١ لقولہ علیہ السلام من حلف بطلاق اوعتاق وقال ان شاء اللہ تعالیٰ متصلا بہ لا حنث علیہ
٢ ولانہ اتی بصورة الشرط فیکون تعلیقا من ھٰذا الوجہ وانہ اعدام قبل الشرط والشرط لا یعلم ھٰھنا فیکون اعداما من الاصل ولہذا یشترط ان یکون متصلاً بہ بمنزلة سائر الشروط (١٨٩٣) ولو سکت یثبت حکم الکلام الاول) ١ فیکون الاستثناء اوذکرالشرط بعدہ رجوعاً عن الاول
ترجمہ: ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کسی نے طلاق یا آزادگی کی قسم کھائی اور متصلا انشاء اللہ کہا تو اس پر حانث ہو نا نہیں ہے ۔
تشریح :کسی نے طلاق دینے کے ساتھ ہی متصلا ان شاء اللہ کہا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
وجہ (١) ان شاء اللہ کے معنی ہیں اگر اللہ چاہے۔اور اللہ کے چاہنے کا پتہ نہیں اس لئے طلاق واقع نہیں ہوگی (٢) حدیث میں ہے جسکو صاحب ہدایہ نے پیش کی ہے ۔عن ابن عمر یبلغ بہ النبی قال من حلف علی یمین فقال ان شاء اللہ فقد استثنی ۔(ابو داؤد شریف ، باب الاستثناء فی الیمین، ص ١٠٨ ،نمبر ٣٢٦١ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الاستثناء فی الیمین ،ص ٢٧٩ ،نمبر ١٥٣١ ابن ماجہ شریف،نمبر ٢١٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ متصلا کہے تو اس کام سے حانث نہیں ہوگا۔(٣) اور یہی حال طلاق کا ہے۔عن ابن عباس ان رسول اللہ قال من قال لامرأتہ انت طالق ان شاء اللہ او غلامہ انت حر ان شاء اللہ او علیہ المشی الی بیت اللہ ان شاء اللہ فلا شیء علیہ۔ (سنن للبیہقی ، باب الاستثناء فی الطلاق والعتق والنذر کھو فی الایمان لا یخالفھا ،ج سابع ،ص٥٩٣، نمبر ١٥١٢٣) اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان شاء اللہ کہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ترجمہ: ٢ اور اس لئے کہ شرط کی شکل میں لایا اس لئے طریقے کی تعلیق ہو گی ، اور شرط سے پہلے تعلیق کو منعدم کرنا ہے اور شرط یہاں نہیں جانی جا سکتی اس لئے اصل ہی سے معدوم ہو جائے گی اور اسی لئے شرط لگائی جاتی ہے کہ کلام کے ساتھ متصل ہو تمام شرطوں کی طرح ۔
تشریح: یہ دلیل عقلی ہے ، کہ اس عبارت میں ان شاء اللہ کے ذریعہ تعلیق کی صورت میں کلام لایا ہے ، اور تعلیق کا قاعدہ یہ ہے کہ شرط پائے جانے سے پہلے گویا کہ کلام ہی نہیں ہے ، اور یہاں اللہ کی مرضی کا پتہ نہیں ہے کہ کیا ہے اس لئے اصل ہی سے کلام معدوم ہو جائے گا ، یہی وجہ ہے کہ اور کلام شرطیہ کی طرح ان شاء اللہ کو کلام کے ساتھ متصل کر کے بولنا ضروری ہے ۔
ترجمہ: (١٨٩٣) اور اگر انت طالق کے بعد چپ رہا تو پہلے کلام کا حکم ثابت ہو جائے گا ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ اس کے بعد استثناء اور شرط کا ذکر کرنا پہلے کلام سے رجوع کرنا ہو گا ۔
تشریح: انت طالق کہا اس کے بعد تھوڑی دیر چپ رہا اور اس کے بعد ان شاء اللہ کہا ، تو ان شاء اللہ بیکار جائے گا اور پہلے جو کلام