٢ ولنا ان ھذاتصرف یمین لوجودالشرط والجزاء فلا یشترط لصحتہ قیام الملک فی الحال لان الوقوع عند الشرط والملک متیقن بہ عندہ ٣ وقبل ذالک اثرہ المنع وھو قائم بالمتصرف
٤ والحدیث محمول علے نفی التنجیز والحملُ ماثور عن السلف کالشعبے والزھری وغیرھما
ترجمہ: ٢ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ قسم کا تصرف ہے شرط، اور جزا پائے جانے کے بعداس لئے اس کے صحیح ہو نے کے لئے فی الحال ملک کے قائم ہو نے کی شرط نہیں لگائی جا سکتی ، اس لئے کہ طلاق واقع ہو نا شرط کے وقت ہے ، اور ملک اس وقت یقینی ہے ۔
تشریح: یہ دلیل عقلی ہے ۔ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ قسم کا تصرف کر نا ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ شرط کے بولتے وقت نکاح کا ہو نا ضروری نہیں ہے البتہ جس وقت طلاق ہو رہی ہے اس وقت نکاح ہو نا ضروری ہے ، اور چونکہ نکاح کی شرط پر طلاق دیا ہے اس لئے طلاق کے وقت یقینا نکاح ہو گا ، اس لئے اس وقت طلاق ہو نے میں حدیث کی مخالفت نہیں ہے ، کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ نکاح نہ ہو تو طلاق نہیں دے سکتے ، یہاں تو نکاح کے وقت طلاق واقع ہو رہی ہے ۔
ترجمہ: ٣ اور شرط پائے جانے سے پہلے قسم کا اثر یہ ہے کہ مشروط سے بچے اور مشروط سے بچنا متصرف کے ساتھ قائم ہے ۔
تشریح: شرط کے پائے جانے سے پہلے قسم کا اثر یہ ہے کہ قسم کھانے والے نے جس چیز کی قسم کھائی ہے اس سے بچتا رہے ، اور یہ بچنا قسم کھانے والے کا کام ہے ، طلاق واقع ہو نے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٤ حدیث جلدی کے نفی پر محمول ہے چنانچہ یہ حمل سلف سے منقول ہے جیسے حضرت شعبی ، حضرت زہری ۔
تشریح :امام شافعی نے جو حدیث پیش کی اس کا جواب ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نکاح سے پہلے ابھی کوئی طلاق دینا چاہے تو طلاق نہیں ہو گی ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شرط پائے جا نے کے بعد اور نکاح ہو جانے کے بعد بھی طلاق نہیں ہو گی ، چناچہ حضرت شعبی اور حضرت زہری سے حدیث کی یہی تاویل منقول ہے ۔ حضرت شعبی کا اثر یہ ہے ۔عن الشعبی انہ سئل عن رجل قال لامراتہ کل امراة تزوجتھا علیک فھی طالق قال فکل امراة یتزوجھا علیھا فھی طالق۔(مصنف ابن ابی شیبة، ١٦ من کان یوقعہ علیہ ویلزمہ الطلاق اذا وقت، ج رابع، ص ٦٦، نمبر ١٧٨٣٢)اثر میں حضرت شعبی سے منقول ہے کہ شرط پائے جانے کے بعد طلاق واقع ہو گی۔ حضرت زہری کا اثر یہ ہے ۔ عن الزھری فی رجل قال : کل امرأة اتزوجھا فھی طالق ، و کل امة اشتریھا فھی حرة قال کما قال، قال معمر فقلت او لیس قد جاء عن بعضھم انہ قال : لا طلاق قبل النکاح ، و لا عتاقة الا بعد الملک ؟ قال انما ذالک ان یقول الرجل : امرأة فلان طالق و عبد فلان حر۔ (مصنف عبد الرزاق ، باب الطلاق قبل النکاح ج سادس، ص٣٢٥ نمبر١١٥١٩) اس اثر میں زہری سے منقول ہے کہ دوسرے کی بیوی کو اس سے نکاح کرنے سے پہلے طلاق جائز نہیں ہے۔