٤ ولا یمنع ذلک باختلاف الدین لما تلونا۔ (٢١٩٤) ولا تجب النفقة مع اختلاف الدین لا للزوجة والأبوین والأجداد والجدات والولد وولد الولد)
ان اولادکم ھبة اللہ لکم (یھب لمن یشاء اناثا و یھب لمن یشاء الذکور ( آیت ٤٩، سورة الشوری٤٢) فھم اموالھم لکم اذا احتجتم الیھا ۔ ( سنن بیہقی ، باب نفقة الابوین ، ج سابع ، ص ٧٨٨، نمبر ١٥٧٤٥) اس حدیث میں جب محتاج ہو تب اولاد سے مال لو۔ (٢) اس حدیث میں ہے کہ آدمی کے پاس اپنا مال ہو تو اپنے مال میں سے ہی نفقہ لازم ہوتا ہے ۔ عن جابر قال اعتق رجل من بنی عذرة عبدا لہ عن دبر ....ثم قال ابدأ بنفسک فتصدق علیھا فان فضل شیء فلاھلک فان فضل عن اھلک شیء فلذی قرابتک فان فضل عن ذی قرابتک شیء فھکذا فھکذا یقول فبین یدیک و عن یمینک و عن شمالک ۔ ( مسلم شریف ، باب الابتداء فی النفقة بالنفس ثم اھلہ ثم القرابة ، ص ٤٠٤، نمبر ٩٩٧ ٢٣١٣) اس حدیث میں ہے کہ پہلے اپنے نفس پر خرچ کرو۔
ترجمہ: ٤ اختلاف دین کے باوجود نفقہ نہیں رکے گا ، اس آیت کی بنا پر جو ہم نے تلاوت کی ۔
تشریح: مثلا والدین کافر ہوں یا یہودی ، یا عیسائی ہوں اورغریب ہوں تب بھی نفقہ لازم ہو گا ، کیونکہ اوپر کی آیت میں کافر والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے اس لئے غیر مسلم والدین کا نفقہ بھی واجب ہو گا ۔
وجہ : (١) آیت میں ہے۔و ان جاھداک علی ٰ أن تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا۔ (آیت ١٥ ،سورۂ لقمان ٣١) اس آیت میں ہے کہ والدین کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ دنیا میں اچھا معاملہ کرو یعنی نفقہ دو۔
ترجمہ: (٢١٩٤)اور نہیں واجب ہوگا نفقہ اختلاف دین کے باوجود مگر بیوی کا اور والدین کا اور دادا کا اور دادی کا اور لڑکے کا اور پوتے کا۔
تشریح: دین اور مذہب الگ الگ ہو پھر بھی مذکورہ لوگوں کا نفقہ واجب ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ کا نفقہ اختلاف دین کے ساتھ لازم نہیں ہے۔
وجہ : (١) بیوی کا نفقہ اصل میں احتباس کی مزدوری ہے اس لئے اگر بیوی یہودیہ یا نصرانیہ ہو پھر بھی اگر شوہر کے گھر میں رہتی ہو تو اس کا نفقہ لازم ہوگا (٢)آیت میں ہے۔وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔(٣)اور بچوں کا نفقہ لازم ہے اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے ۔(٤) اور یہ آیت بھی ہے۔والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین (آیت ٢٣٣ سورة البقر( ٢) اور ماں باپ دادا دادی اور نانا نانی کا نفقہ لازم ہے اس کی دلیل مسئلہ نمبر٢١٩٣ میں گزر چکی ہے۔