١ وقال الشافع لا نفقة للمبتوتة الا ذا کانت حاملا أما الرجع فلأن النکاح بعدہ قائم لا سیما عندنا فانہ یحل لہ الوطی وأما البائن فوجہ قولہ ما رو عن فاطمة بنت قیس قالت طلقن زوج ثلاثا فلم یفرض ل رسول اللّٰہ علیہ السلام سکنی ولا نفقة
کتاب اللہ وسنة نبینا لقول امرأة لا ندری لعلھا حفظت او نسیت لھا السکنی والنفقة وتلا الآیة قال اللہ عز وجل لا تخرجوھن من بیوتھن ،(آیت ١، سورة الطلاق ٦٥ )(مسلم شریف، باب المطلقة البائن لا نفقة لھا ،ص ٤٨٣ ، نمبر ٣٧١٠١٤٨٠ ابو داؤد شریف، باب من انکر ذلک علی فاطمة بنت قیس، ص ٣٢٠ ،نمبر ٢٢٩١) اس حدیث اور اثر سے معلوم ہوا کہ عدت گزارنے والی عورت کے لئے نفقہ اور سکنی ہے (٤) معتدہ شوہر کے لئے عدت گزار رہی ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ پیٹ میں بچہ ہے یا نہیں اس لئے شوہر پر اس کا نفقہ لازم ہوگا۔(٥) اور اگر معتدہ حاملہ ہے تب تو لازمی طور پر اس کے لئے نفقہ ہے ، اس آیت میں ہے۔ وان کن أولات حمل فأنفقوا علیھن حتی یضعن حملھن ۔ ( آیت٦، سورة الطلاق٦٥) اس آیت میں ہے کہ حمل والی عورت پر خرچ کرو۔(٦) مطلق رجعیہ ہے تو وہ ابھی بھی پورے طور پر بیوی ہے اس لئے اس کے لئے بالاتفاق نفقہ اور سکنی ہے ۔حدیث یہ ہے ۔ عن عائشة ان رسول اللہ ۖ قال لفاطمة انما السکنی و النفقة لمن کان لزوجھا علیھا رجعة ۔ (دار قطنی ، کتاب الطلاق ،ج رابع، ص ١٥ ،نمبر٣٩٠٨) اس حدیث میں ہے کہ مطلقہ رجعیہ کے لئے نفقہ اور سکنی ہے ۔
ترجمہ: ١ امام شافعی نے فرمایا کہ طلاق بائنہ والی کے لئے نفقہ نہیں ہے مگر جبکہ حاملہ ہو ۔ بہر حال طلاق رجعی تو نکاح قائم ہے ، خاص طور پر ہمارے نزدیک اس لئے کہ اس سے وطی بھی حلال ہے ۔ بہر حال بائنہ والی کا تو حضرت امام شافعی کے قول کی وجہ ، حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے ، کہ مجھکو میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو حضور ۖ نے میرے لئے نہ سکنی فرض کیا اور نہ نفقہ ۔
تشریح: امام شافعی فر ماتے ہیں کہ طلاق بائنہ ہو یا تین طلاق مغلظہ ہو ان عورتوں کے لئے عدت کے زمانے میں نفقہ نہیںہے ، صرف سکنی ملے گا ، اور طلاق رجعی میں عورت کا نکاح ہر اعتبار سے قائم ہے یہاں تک کہ ہمارے نزدیک بغیر رجعت کئے اس سے وطی بھی جائز ہے اس لئے اس کے لئے نفقہ اور سکنی دونوں بالاتفاق واجب ہے ۔ موسوعہ میں عبارت یہ ہے ۔و ان طلقھا و کان یملک الرجعة فعلیہ نفقتھا فی العدة ۔( موسوعہ نمبر ١٦٥٠٣) و لا ینفق علیھا اذا لم یکن یملک الرجعة لانھا احق بنفسھا منہ و لا تحل لہ الا بنکاح جدید ۔( موسوعہ امام شافعی، باب وجوب نفقہ المرأة ، ج عاشر ، ص ٣٠٠، نمبر ١٦٥٠٤) اس عبارت میں ہے کہ طلاق رجعی والی کے لئے نفقہ ہے اور بائنہ والی کے لئے نفقہ نہیں ہے ۔
وجہ: (١)بائنہ طلاق والی کسی طرح بیوی نہیں ہے اور نہ اس کے پیٹ میں شوہر کا بچہ ہے اس لئے اس کے لئے نفقہ نہیں ہوگا (٢)حضرت فاطمہ بنت قیس کی لمبی حدیث ہے جس میں ان کو نفقہ اور سکنے نہیں دیا گیا۔عن فاطمة بنت قیس انہ طلقھا