٣ وقال زفر یقض فیہ لأن فیہ نظراً لہا ولا ضرر فیہ علی الغائب فانہ لو حضر وصدقہا فقد أخذت حقہا وان جحد یحلف فان نکل فقد صدق وان أقامت بینة فقد ثبت حقہا وان عجزت یضمن الکفیل أو المرأة وعمل القضاة الیوم علی ہذا أنہ یقض بالنفقة علی الغائب لحاجة الناس وہو مجتہد فیہ
فیصلہ کرے گا ۔ لیکن اگر قابض زوجیت کا اقرار نہیں کرتا ، اور نہ قاضی کو زوجیت کا علم ہے کہ یہ عورت فلاں غائب کی بیوی ہے ، اور عورت زوجیت پر گواہ قائم کرے تو نفقے کا کا فیصلہ نہیں کرے گا ، کیونکہ زوجیت کو گواہ کے ذریعہ ثابت کرنا مستقل طور پر قضا علی الغائب ہے جو جائز نہیں ہے اس لئے نفقے کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ قابض غائب کے مال کا اقرار نہیں کرتا ، اور قاضی کو بھی اس کے مال کا علم نہیں ہے اب عورت گواہ قائم کرکے نفقہ متعین کروانا چاہتی ہے اور غائب شوہر پر قرض لیتے رہنے کا فیصلہ کروانا چاہتی ہے تو یہ فیصلہ نہ کرے ، کیونکہ یہ مستقل طور پر قضاء علی الغائب ہے جو جائز نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٣ امام زفر نے فرمایا کہ اس میں نفقے کافیصلہ کیا جائے گا ، اس لئے کہ اس میں عورت کے لئے نفع ہے اور غائب پر کوئی نقصان نہیں ہے ، اس لئے کہ اگر غائب واپس آیا اور عورت کی تصدیق کی تو عورت نے اپنا حق لیا ، اور اگر شوہر نے انکار کیا تو قسم کھلائی جائے گی ، پس اگر قسم سے انکار کیا تو گویا کہ عورت کی تصدیق کردی ، اور اگر عورت نے نفقہ نہ دینے پر بینہ قائم کیا تو عورت کا حق ثابت ہو گیا ، اور اگر بینہ قائم کرنے سے عاجز ہو گئی تو کفیل نفقہ واپس کرنے کا ضامن ہوگا ، یا عورت ضامن ہو گی ، اور قاضیوں کا عمل اس دور میں اسی پر ہے کہ لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے غائب پر نفقے کا فیصلہ کر تے ہیں ، اور مسئلہ مجتہد فیہ ہے ۔
تشریح: امام زفر کی رائے ہے کہ اوپر کی دونوں صورتوں میں غائب پر نفقے کا فیصلہ کیا جائے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں عورت کا فائدہ ہے اور شوہر کا کوئی نقصان نہیں ہے ، کیونکہ اگر شوہر آیا اور اس نے تصدیق کردی کہ میں نے نفقہ نہیں دیا تھا تو عورت نے اپنا حق لیا ، اور اگر اس نے انکار کر دیا تو کہا جائے گا کہ قسم کھا کر کہوکہ میں نے نفقہ دیا تھا ، پس اگر وہ قسم کھانے سے مکر گیا تو گویا کہ عورت کی تصدیق کردی کہ اس کا نفقہ لینا صحیح ہے ، اور اگر اس نے قسم کھا کر کہا کہ نفقہ دے کر گیا تھا ، تو اب عورت بینہ قائم کرے کہ نفقہ دیکر نہیں گیا رتھا ، اگر اس نے اس پر بینہ قائم کر دیا تو اس کا حق ثابت ہو جائے گا اور نفقہ لینا درست ہو گا ، اور اگر وہ بینہ قائم نہ کر سکی تو اس کے دئے ہوئے کفیل سے نفقہ واپس لیا جائے گا ، یا خود عورت سے نفقہ واپس لیا جائے گا ، بہر حال شوہر کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس لئے اس دور میں عورتوں کی مجبوری دیکھتے ہوئے غائب پر نفقے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، اور چونکہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اس لئے قضاء علی الغائب کرکے نفقے کے فیصلے کی گنجائش ہے ۔