(٢١٣٣) ولولم یعلم بانہا حرة فقالت الورثة انت ام ولد فلامیراث لہا) ١ لان ظہور الحریة باعتبارالدارحجة فی دفع الرق لا فی استحقاق المیراث
نکاح فاسد یا وطی بالشبہ سے نہیں ، اور جب نکاح صحیح مراد لی تو عورت اور بچہ دونوں وارث ہوں گے ۔
اصول : عام حالات میں نکاح سے مراد نکاح صحیح ہی ہو گا ۔
ترجمہ: (٢١٣٣) اگر لوگوں میں مشہور نہ ہو کہ عورت آزاد ہے ، اور ورثہ نے کہا کہ تم مرنے والے کی ام ولد ہو تو عورت کے لئے میراث نہیں ہو گی ۔
تشریح: یہ مسئلہ دو اصولوں پر متفرع ہے ۔]١[ اگر عورت آزادگی میں مشہور نہ ہو ، اور باندی ہونے میں بھی مشہور نہ ہو تو دار الاسلام ہونے کی وجہ سے اس کو آزاد قرار دیا جائے گا ، کیونکہ دار الاسلام میں لوگ عموما آزاد ہوتے ہیں ، لیکن اس کی وجہ سے اگر کسی کی وراثت کا حقدار ہوتی ہو تو وراثت کا حقدار قرار نہیں دیا جائے گا ، جب تک کہ اس کے لئے حجت کاملہ نہ ہو ۔ ]٢[ دوسرا اصول یہ ہے کہ ام ولد سے بچہ ہو تو یہ آقا کے مال کا وارث نہیں ہو گی ، ہاں آزاد عورت سے بچہ ہو اور نکاح صحیح ہو تو یہ شوہر کے مال کا وارث ہو گی ۔۔ یہ مسئلہ اوپر کے مسئلے کا حصہ ہے ۔۔ مرنے والے نے ایک بچے کے بارے میں اقرار کیا تھا کہ یہ بچہ میرا ہے ، اور اس کی ماں کے بارے میں لوگوں میں مشہور نہیں تھا کہ یہ عورت آزاد ہے ، اب اسکے ورثہ نے کہا کہ بچہ تو مرنے والے کے اقرار سے اس کا بیٹا ہے لیکن عورت اس کی بیوی نہیں ہے بلکہ ام ولد ہے اور باندی کی حالت میں وطی کر کے اس سے بچہ پیدا کیا ہے اس لئے یہ باندی مرنے والے کا وارث نہیں ہو گی ۔ تو چونکہ عورت نہ آزاد ہونے میں مشہور ہے اور نہ باندی ہونے میں مشہور ہے اس لئے دار الاسلام ہونے کی وجہ سے آزاد شمار کی جائے گی، لیکن دوسرے کے مال میں حصے دار بننا ایک اہم معاملہ ہے اس کے لئے عورت کے پاس کوئی گواہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی علامت ظاہرہ ہے ، اور ورثہ نے عورت کے آزاد ہونے کی تکذیب کی ہے اس لئے وہ عورت وارث نہیں بنے گی ۔ کیونکہ دار الاسلام کی وجہ آزاد گی کا اعتبار کیا جائے کسی کی میراث میں استحقاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ دار الاسلام کے اعتبار سے آزادگی کا ظہور رقیت کے دفع کرنے میں حجت ہے ، میراث کے استحقاق میں حجت نہیں ہے ۔
تشریح: یہ دلیل عقلی ہے کہ دار الاسلام ہو نے کا اتنا فائدہ ہو گا کہ عورت آزاد شمار کی جائے گی اور رقیت ، یعنی غلامیت دفع ہو جائے گی ، لیکن اس کی وجہ سے دوسرے کے مال میں میراث کا مستحق نہیں ہو گی ، کیوںکہ اس کے لئے شہادت کاملہ چا ہئے ۔