شکایتیں پیش کرنے کی پوری مہلت دے ، ]٢[پھر دونوں کی شکایتوں پر خوب غور کرے بلکہ بار بار غور کرے]٣[ پھر میاں بیوی میں صلح کرانے کی انتھک کوشش کرے ، ]٤[ جب یہ تمام حربے ناکام ہوجائیں اور مل کر رہنے کی کوئی صورت نہ رہے تب مجبوری کے درجے میں فسخ نکاح کرے ۔
(اختلافی صورت میں قاضی کا فیصلہ قابل نفاذ ہے )
اختلافی صورت میں قاضی اور حاکم کا فیصلہ قابل نفاذ ہے ، اگر وہ شریعت کے حدود و قیود میں رہ کر فیصلہ کرے تو اس پر عمل کیا جائے گا ۔
وجہ : اس آیت میں اس کا ثبوت ہے (١) یا آیھا الذین آمنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولی الامر منکم فان تنزعتم فی شیء فردوہ الی اللہ و الرسول ان کنتم تؤمنون باللہ و الیوم الآخر ذالک خیر و ا حسن تأویلا ۔( آیت ٥٩، سورة النساء ٤) (٢) و اذا جآئھم أمر من الامن أو الخوف أذا عوا بہ و لو ردوہ الی الرسول و الی أولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم۔ ( آیت ٨٣، سورة النساء ٤ ) ان دونوں آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حاکم فیصلہ کرے ۔ (٣) اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔عن عائشة أن حبیبة بنت سھل کانت عند ثابت بن قیس بن شماس فضربھا فکسر بعضھا فأتت النبی ۖ بعد الصبح فاشتکتہ الیہ فدعا النبی ۖ ثابتا فقال خذ بعض مالھا و فارقھا فقال ویصلح ذالک یا رسول اللہ ؟ قال نعم قال فانی أصدقتھا حدیقتین و ھما بیدھا فقال النبی ۖ خذھما ففارقھا ففعل ۔( ابوداود شریف، باب فی الخلع ، ص٣٢٣، نمبر ٢٢٢٨) اس میں حضور ۖ حاکم اور قاضی تھے اور آپ نے فیصلہ فر مایا ۔ (٤) عن الزھری قال تفریق الامام تطلیقة ۔( مصنف ابن ابی شیبة ، من قال اذا ابی ان یسلم فھی تطلیقة، ج رابع ، ص ١١٠، نمبر ١٨٣١٠) اس اثر میں ہے کہ امام یعنی قاضی تفریق کرائے تو تفریق ہو جائے گی
(شرعی پنچائت مذہب مالکی سے مأخوذ ہے )
مالکی مذہب میں یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں جہاں اسلامی قاضی نہ ہو وہاں مقدمات کا مرافعہ جماعت مسلمین کے پاس کیا جا سکتا ہے، جسکو شرعی پنچایت ، یا امارت شرعیہ کہتے ہیں ، وہی فیصلے کے لئے قاضی اور حاکم کی حیثیت رکھے گی اور اس کی تفریق سے قاضی کی تفریق کی طرح فسخ نکاح شمار کیا جائے گا ، یا کسی بھی مقدمے میں شریعت کے تحت فیصلے کے بعد شرعی حیثیت حاصل ہو جائے گی ،مالکی مذہب کی عبارت یہ ہے ۔و ولزوجة المفقود : الرفع للقاضی، و الوالی ، و والی الماء ، و الا فلجماعة المسلمین۔( مختصر خلیل ، للعلامة الشیخ خلیل بن اسحاق المالکی ، باب فصل فی مسائل زوجة المفقود، ص١٦٣) اس عبارت میں ہے کہ جس کا شوہر لا پتہ ہو تو اس کا معاملہ قاضی کے پاس لے جائے ، اور والی کے پاس لے جائے ، اور پانی کے والی کے پاس لے جائے، اور ان میں سے کوئی نہ ہوں تو جماعت مسلمین کے پاس لے جائے ، جسکو شرعی پنچائت ، یا امارت شرعیہ کہتے ہیں ، وہ اس کا