فتحریر ر قبة من قبل ان یتما سا ٢ والظہا رکان طلاقا فی الجاہلیة فقر ر الشر ع اصلہ و نقل حکمہ الی تحریم موقت با لکفارة غیر مزیل للنکا ح
یستطع فاطعام ستین مسکینا ذلک لتؤمنوا باللہ ورسولہ ۔ (آیت ٤٣ سورة ،المجادلة ٥٨) کی وجہ سے ۔
تشریح: شوہر نے بیوی سے کہا تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو تو بیوی اس کہنے سے حرام ہو جائے گی اور ظہار واقع ہو جائے گا۔ اب اس کے لئے اس سے وطی کرنا، یا دواعی وطی کرنا مثلا چھونا ، بوسہ لینا وغیرہ حرام ہیںجب تک کفارہ نہ دے۔
وجہ: (١) آیت اور حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ظہار کرنے کا طریقہ اس اثر سے ثابت ہے۔ قلت لعطاء الظھار ھو ان یقول ھی علی کامی ؟ قال نعم۔ (مصنف عبد الرزاق ، باب کیف الظھار، ج سادس، ص٣٢٦، نمبر١١٥٢٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ظہار کس طرح کہنے سے واقع ہوگا۔
ترجمہ: ٢ ظہار زمانہ جاہلیت میں طلاق تھا ، پس شریعت نے اس کے اصل کو بر قرار رکھا اور اس کے حکم کو متعین وقت تک حرمت کی طرف منتقل کر دیا کفارہ کے ساتھ جو نکاح کو زائل کرنے والا نہیں ہے ۔
تشریح: زمانہ جاہلیت میں لفظ ظہار سے ہمیشہ کیلئے طلاق واقع ہو جاتی تھی اور عورت ، حرام ہو جاتی تھی ، اسلام میں اس کے حرمت کا اثر باقی رکھا ، کہ ظہار سے عورت حرام ہو جائے گی لیکن ہمیشگی باقی نہیں رکھی ، بلکہ کفارہ دینے پر موقوف رکھا ، اگر کفار ظہار ادا کردے تو عورت دوبارہ حلال ہو جائے گی اور نکاح باقی رہے گا ۔
وجہ : اس حدیث میں اس کا ثبوت ہے ۔عن ابن عباس قال کان الرجل اذا قال لامراتہ فی الجاھلیة انت علی کظہر امی حرمت علیہ فی السلام قال وکان اول من ظاھر فی الاسلام اوس و کانت تحتہ ابنة عم لہ یقال لھا خویلةبنت خویلد فظاہر منھا فاسقط فی یدہ و قال ما اراک الا قد حرمت علی ، قالت لہ مثل ذالک قال قال : فانطلقی الی النبی ۖ فسلیہ فأتت النبی ۖ فوجدت عندہ ما شاطة تمشط رأسہ فأخبرتہ فقال(( یا خویلة ما امرنا فی امرک بشیء )) فانزل علی النبی ۖ فقال یا خویلة أبشری ، قالت خیرا فقرأ علیھا قولہ تعالی (قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا و تشتکی الی اللہ )الآیة ]المجادلة و ما بعدھا ( سنن بیہقی ، باب سبب نزول آیة الظہار ، ج سابع ، ص ٦٢٩، نمبر ١٥٢٤٥) اس حدیث میں ظہار کی پوری تفصیل موجود ہے ۔ (٢) اس اثر میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔ عن مقاتل بن حیان قال کان الظہار و الایلاء طلاقا علی عھد الجاھلیة فوقت اللہ عز وجل فی الایلاء أربعة اشہر و جعل فی الظہار الکفارة ۔( سنن بیہقی ، باب سبب نزول آیة الظہار ، ج سابع ، ص ٦٢٩، نمبر ١٥٢٤٧) اس اثر میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ظہار کے لفظ سے ہمیشہ کی طلاق واقع ہو جایا کرتی تھی ، لیکن اسلام میں اس لفظ سے عورت سے وطی کرنا حرام قرار دیا لیکن کفارہ ادا کرنے سے وہ حرمت ختم ہو جائے گی ۔