Deobandi Books

العلم و الخشیۃ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

26 - 37
لکھنؤ میں ایک بزرگ زمیندار تھے ۔ ان کے پاس گاؤں کے کاشت کار آئے تو مولوی صاحب ان سے پوچھتے ہیں کہ ’’امسال تمہارے کشت زار گندم پر تقاطر امطار ہوا یا نہیں ؟ ‘‘ یہ گاؤں والے بڑے ذہین ہوتے ہیں ، مولوی صاحب کی یہ بات سن کر ایک نے دوسرے سے کہا ۔ بھائی ! مولوی جی ابھی قرآن پڑھ رہے ہیں۔اب چلو جب آدمیوں کی سی بولی بولیں گے اس وقت آجائیں گے ۔ 
اسی طرح مولوی فخر الحسن گنگوہیؒ بیان کرتے تھے کہ دہلی میں ایک مدرس معقولات سے لوگوںنے وعظ کی درخواست کی آپ وعظ کہنے بیٹھے کہ حق تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا انعام ہے کہ ہم کو لیس سے ایس میں لائے اور پھر وہ ہم کو ایس سے لیس میں لے جائیں گے اور اس کے بعد قیامت میں پھر لیس سے لیس میں لے آئیں گے ۔بندئہ خدا نے سارا وقت ایس اور لیس میں گزار دی ا۔ تو خدا کے واسطے ایسی ولائتی زبان میں وعظ نہ کہنا بلکہ روز مرہ کی بول چال میں عوام کو احکام سمجھاؤ۔
افسوس ہے کہ مولویوں نے وعظ کہنا بالکل چھوڑ دیا اور غضب یہ ہے کہ بعضے تو یہ سمجھتے ہیں کہ وعظ کہنا جاہلوں کا کام ہے ،علماء کا کام فتویٰ دینا اور پڑھنا پڑھانا ہے ۔ 
صاحبو! ذرا زبان سنبھالئیے یہ بات بہت دور تک پہنچتی ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ اب تک جتنے انبیاء گزرے ہیں ان میں کتنے ایسے تھے جو کتابیں پڑھاتے تھے ؟ انشاء اﷲ ایک نبی کو بھی آپ ایسا نہ پائیں گے ۔ بلکہ انبیاء کا طریقہ وعظ ونصیحت ہی کے طریقہ سے تبلیغ کرنا تھا ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ پڑھنا پڑھانا بیکار ہے اس کی ضرورت میں ابھی بیان کروں گا ۔مگر اس وقت میں ان صاحبوں کا جواب دے رہا ہوں جو وعظ کو فضول اور بیکار سمجھتے ہیں ۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا اصلی کام یہی تھا۔ آپ کو یہ طریقہ ضرور اختیار کرنا چاہئے ۔ عوام کی تعلیم اس طرح ہو سکتی ہے سب کو میزان منشعب پڑھنے کی فرصت نہیں ہے ۔ 
 اور اگر کوئی یہ کہے کہ صاحب وعظ سے اثر نہیں ہوتا اس لیے بے کار ہے اور درس وتدریس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے اس لیے ہم بجائے وعظ کے درس میں مشغول ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اثر پہنچانے کے مکلّف نہیں ہیں۔آپ اپنا کام کیجئے اثر اخدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے جس کو وہ نفع دینا چاہیں گے اسے خود متاثر کردیں گے ۔ مولانا فرماتے ہیں   ؎
نوح نہ صد سال دعوت می نمود
دمبدم انکارِ قومش می فزود
( نوح علیہ السلام نو برس تک تبلیغ کرتے رہے مگر دمبدم انکی قوم کا انکار بڑھتا ہی رہا۔)
حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو وعظ ونصیحت سے سمجھایا اور ان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا مگر نوح علیہ السلام اتنی مدت میں 
Flag Counter