ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
محاذوں پر اَب بھی جاری ہے اَور اِس صورت ِ حال کو قابو میں لانے کے لیے اہلِ مذاہب کے درمیان مکالمہ اَور مفاہمت کے فروغ کے لیے مختلف سطحوں پر کام ہو رہا ہے۔ اِس تصادم اَور خونریزی کو ختم کرنے کے لیے ایک حل یہ تجویز کیا گیا ہے جس پر دُنیا کے ایک بڑے حصہ میں عمل ہو رہا ہے کہ سرے سے مذہب کے وجود کی یا کم اَزکم سوسائٹی کے اِجتماعی معاملات سے اِس کے تعلق کی نفی کردی جائے اَور مذہب سے اِنکار یا اِسے محض فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اِس کے معاشرتی کردار کو ختم کر دیا جائے لیکن یہ سوچ اَور طریق ِکار منفی اَور غیر فطری ہونے کی وجہ سے بالا خر ناکام ہوتاجا رہا ہے اَور دُنیا کے مختلف معاشروں میں مذہب کے معاشرتی کردار کی واپسی کا عمل دِھیرے دِھیرے بڑھتا نظر آرہا ہے جس نے دَانش کی اعلیٰ سطح کو اِس طرف متو جہ کیا ہے کہ مذہب کی نفی کر نے کے بجائے مذہب کے کرداروعمل کو باہمی مفاہمت ومکالمہ کے ذریعہ آگے بڑھایاجائے اَورمختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات ومفا ہمت کی فضاء پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔یہ حقیقت ایک بار پھر اِنسا نی سو سا ئٹی میں خود کو تسلیم کراتی دِکھائی دے رہی ہے کہ مذہب کوایک فرد اَور اِنسا ن کی بھی ضرورت ہے اَور معاشرہ اَورسوسائٹی کی بھی ضرو رت ہے جسے کسی صورت میں نظراَندازنہیں کیا جاسکتا ۔ پھریہ مفروضہ بھی محض تکلّف کی حیثیت رکھتا ہے کہ چونکہ مذہب کی وجہ سے تنا زعات جنم لیتے ہیں اَور باہمی تصادم اَور خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہو تی ہے اِس لیے اِس کی نفی کر دی جائے اِس لیے کہ مذہب کے علاوہ اَور بھی عوامل موجود ہیں جواِنسا نی سوسائٹی میں منافرت ،باہمی جنگ وجدال اَور قتل وغارت کاباعث بنتے ہیں ۔پہلی جنگ ِعظیم اَور دُوسری جنگ ِعظیم کے اَسباب میں مذہب کاکوئی تذکرہ نہیں ہے اَور قومیت، رنگ ونسل ، علاقائیت، زبان اَورنسلی عصبیت کا اِنسانوں کولڑانے اَور خون بہانے میں کردا ر کسی سے مخفی نہیں ہے اِس لیے مذہب کو سوسائٹی میں جنگ وجدال ، اِنتہا ء پسندی اَور قتل وغارت کا باعث قرار دے کر اِس کی نفی کرنے اَور سوسائٹی کے اِجتماعی معاملات سے مذہب کے بے دخل کرنے کا فلسفہ غیر فطری اَور غیر حقیقت پسندانہ ہے اِور اِسی وجہ سے اِسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ مذہبی رَوادَاری کا ایک اَور فلسفہ آج کل زیر بحث ہے کہ تمام مذاہب کے مشترکات کو جمع کر کے ایک مشترکہ مذہب تشکیل دیا جائے اَور جن اَقدار ورَوایات کی سوسائٹی کو ضرورت ہے اُنہیں ایک ''متحدہ مذہب''