ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
صرف تمہارے حق میں دستبردار ہوئے تھے اِس لیے یزید کو ولی عہد نہیں بنایا جا سکتا ۔ ظاہر ہے اَگر اِن بزرگوں کو اِس قسم کی شرط کا علم ہوتا تو وہ دُوسرے دلائل کے ساتھ اِسے بھی یزید کی ولی عہدی کی مخالفت میں ضرور پیش کرتے پھر اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنے دعوی کی تائید اَور یزید کی مخالفت میں بہت سی تقریریں کیں اَور اُن تقریروں میں یزید کی مخالفت کے اَسباب بیان کیے لیکن کسی تقریر میں بھی آپ نے یہ دعوی نہیں فرمایا کہ چونکہ میرے بھائی حسن رضی اللہ عنہ صرف اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوئے تھے اَور وہ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں وفات پاچکے تھے اِس لیے اُصول توارِث کی رُو سے اُن کی جانشینی کا حق مجھے یا حسن رضی اللہ عنہ کی اَولاد کو پہنچتا ہے۔ حالانکہ یزید کی حکومت کے خلاف دلائل میں یہ بڑی قوی دلیل تھی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اُس کی طرف اِشارہ بھی نہیں فرمایا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہی سرے سے غلط ہے۔ باقی رہایہ سوال کہ پھر بعض اَرباب ِ سیر نے اِ سے کیوں نقل کیا ہے؟ اِس کا جواب اُن لوگوں کے لیے بہت آسان ہے جو بنی اُمیہ اَور بنی ہاشم کی اِختلافی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک حامی دُوسرے کے متعلق ایسی روایتیں گھڑ دیتے ہیں جس سے دُوسرے کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیںکہ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرا ہوکر اَور پھر اپنے بعد یزید کو ولی ٔعہد بنا کر اِسلامی خلافت ختم کر کے تاریخ ِاِسلام میں نہایت بُری مثال قائم کی لیکن اِس غلطی کو محض اُس کی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر اُن کے مخالفوں نے اِس پر بس نہیں کیا بلکہ اُن کے خلاف ہرطرح کے بہتان تراش کر تاریخوں میں شامل کر دیے۔اُوپر کی شرط بھی اُسی بہتان کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے نزدیک اِس شرط کی اِیزاد سے اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اِشارے سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے والی روایت کی توثیق مقصود ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا۔ اِس لیے کہ جب بطور ِمقدمہ کے اِسے تسلیم کر لیا جائے کہ حسن رضی اللہ عنہ صرف معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی تک کے لیے خلافت سے دستبردار ہوئے تھے اَور اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے خاندان میں حکومت چاہتے تھے تو پھر اِن دونوں مقدمات سے یہ کھلا ہوانتیجہ نکل آتاہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کو اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ