ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
دست برداری کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد اَنصاری کو جو مقدمة الجیش کے ساتھ شامیوں کے مقابلہ پر مامور تھے اِس کی اِطلاع دی اَور جملہ اُمور اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر کے مدائن چلے آنے کا حکم دیا ۔قیس کو یہ فرمان مِلا تواُنہوں نے فوج کو پڑھ کر سنایا اَور کہا کہ اِس کے بعد ہمارے لیے صرف دوصورتیں ہیں یا تو بِلااِمام کے جنگ جاری رکھیں یا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اِطاعت قبول کر لیں، اِن کے دستہ میں بھی کچھ کمزور لوگ موجود تھے جنہوں نے اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اِطاعت قبول کرلی اَور قیس حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق آپ کے پاس مدائن چلے آئے۔ اَور اِن کے مدائن آنے کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے گئے اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ یہاں آکر آپ سے ملے اَور دونوں میںصلح نامہ کی شرائط کی زبانی بھی تصدیق وتوثیق ہو گئی ۔ (اَخبار الطوال ص ٢٣٢) اُوپر جوشرطیں اَخبار الطوال سے نقل کی گئی ہیں اِن کے علاوہ عام طور پر ایک یہ شرط بہت مشہو ر ہے کہ ''اَمیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوںگئے''لیکن یہ شرط مروج الذہب، مسعودی، اَخبارالطوال دینوری، یعقوبی ،طبری اَور ابن اَثیروغیرہ کسی میں بھی نہیں ہے۔ اَلبتہ علامہ ابن عبدالبر نے اِستیعاب میں لکھا ہے کہ علماء کا یہ بیان ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ صرف معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی تک کے لیے اِن کے حق میں دست بردارہوئے تھے۔ (اِستیعاب تذکرہ اِمام حسن ) ٰلیکن ابن ِعبدالبر کایہ بیان خود محلِ نظر ہے اِس لیے کہ جو واقعہ کسی مستند تاریخ میں نہیں ملتا اُس کو علماء کا بیان کیسے کہا جا سکتاہے ۔ممکن ہے اُن کے عہد کے علماء کی یہ رائے رہی ہو لیکن تاریخوں سے اِس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ خود طبری نے بھی جو اپنی تاریخ میں ہر قسم کی رطب و یابس روایتیں نقل کر دیتا ہے اِس شرط کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے اَور آئندہ واقعات سے بھی اِس کی تائید نہیں ہوتی۔ اِس شرط کے نہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت لینے کے لیے مدینہ گئے اَور ابن ِزبیر رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ اَور عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا تو اِن بزرگوں نے اِس کے خلاف ہر طرح کے دلائل دیے، ابن ِزبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ طریقہ خلفائے راشدین کے اِنتخابی طریقہ کے خلاف ہے اِس لیے ہم اِسے منظور نہیں کر سکتے۔عبدالرحمن بن اَبی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ قیصرو کسری کی سنت ہے لیکن کسی نے بھی یہ دلیل نہیں دی کہ حسن رضی اللہ عنہ