ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اپنے پاس سے اَٹھنی دے کررُخصت کیا ۔اِسے دیکھ کر میں نے مولانا سے برجستہ عرض کیا کہ اَب میں اِس بیرک میں آپ کے ساتھ نہ رہوں گاکیونکہ آپ کا اَخلاق اِتنا وسیع ہے اگر میں تھوڑے دِنوں اَور رہا تو میں بھی مسلمان ہوجائوں گا۔تو اُنہوں نے فر مایا کہ تم تو بہت دِنوں سے مسلمان ہو تم کیا مسلما ن ہو گے ؟ جیل میں سیاسی قیدی گرمی کے مہینے میں جان بوجھ کر دیر میں بند ہو تے تھے جس سے جیل والو ں کو تھوڑی سی پریشانی ہو تی تھی لہٰذااُنھوں نے سیاسی قیدیو ں کی بیرک کودیر میں کھولنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گرمی کے مہینے میں پاخا نہ صاف نہ رہنے کی وجہ سے آٹھ بجے صبح تک بھنگی نہیںجانے پاتاتھا جس سے سیاسی قیدیو ں کو پریشانی اُٹھانی پڑتی تھی ۔اِس پر یشانی کو دیکھ کر میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آج میں اِس بیرک میں بند ہوں گا اَور سیاسی قیدیوں کا پاخانہ صاف کروں گا۔ مولانا نے اِرشاد فرمایا میں بھی چلوں گا تم اکیلے کیوں جاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ہی جانے سے جیل والوں کی عقل ٹھیک ہوجائے گی آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ ''(قومی آواز ٣٠دسمبر ١٩٥٧ئ) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت رحمة اللہ علیہ قید و بند کی حالت میں بھی اپنے اعلیٰ اَخلاق سے پیش آتے اَور جہاں تک ہو سکتا اپنے رُفقائِ کا ر کا ساتھ دیتے اَور اُن کی خدمت کرتے(جیساکہ کراچی جیل کا واقعہ پیش کرچکا ہوں)۔ یہی وجہ تھی کہ جب شکل صاحب کو حضرت کی بیرک سے علیحدہ کرنے کا آرڈر آیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں مولانا کو چھوڑ کر تنہا بہشت میں بھی جانا پسند نہیں کروں گا۔ جیل کے حالات پر زیر عنوان ''معمولات ِ جیل'' میں ذرا تفصیلی بحث کروں گا ۔ اِنشاء اللہ تعالیٰ۔ (جاری ہے)