ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
بِلا تفریق واِمتیاز ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا یہ صرف اِسلام ہی کا طریقہ ہے اَور رسول اللہ ۖ کی سنت ہے جس کے متعلق زیر عنوان مہمان نوازی لکھ چکا ہوں ،ہاں دُوسری چیز جواَچاریہ صاحب نے فرمائی ہے کہ'' سب کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کرتے تھے''یہ بات تو آج کل حقیقی بھائیوں میں بھی موجود نہیں ہے لیکن حضرت '' اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ '' اَور''کُلُّ بَنِیْ آدَمَ اِخْوَة''کے تحت بِلا تفریق مذہب وملت سب اِنسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے ۔جیل کی زندگی میں جہاں ہر اِنسا ن اپنی ہی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے وہاں بھی آپ کی اِنسانی ہمدردیاں سب کے ساتھ یکساں ہوتی تھیں ۔ اِس موقع پر ہم آپ کے رفیق جیل جناب سیتارام شکل کے تاثرات و مشاہدات پیش کر تے ہیں ۔شکل صاحب فرما تے ہیں :''بھائی بھائی بر ابرہیں یہ کہتے بہتوں سے سناہے لیکن برابری کا برتائوصرف مولانا کو کرتے دیکھا ہے ،کھانا پکاتے وقت باورچی باورچی رہتا تھا اَور آپ مالک رہتے تھے لیکن کھانا کھاتے وقت باورچی اَور مالک ایک ہوتے تھے۔'' سبحان اللہ! حضرت نے اِسلام کو صحیح معنٰی میں پیش کیا ہے ۔شکل صاحب آگے فرماتے ہیں : ''یہ ہی نہیںصرف ایک پائو گوشت مولانا کو ملتا تھا لیکن کھانے کے وقت جو بھی آکر کھا تے وقت بیٹھ جائے اُس کو کھا نے میں حصہ مل جاتاتھا ۔ جیل کی میعاد نہیں تھی یہ پتہ نہیں تھا کہ جیل میں کب تک رہنا ہے لیکن اگر کوئی معمولی قیدی کھانے کے وقت آگیا تواُس کا کھانا اَور اپنا کھا نا مِلا کر اُس کو اپنے ساتھ کھلا تے تھے ،تندرستی گرنے لگی تو میں نے جیل کے ڈاکٹر سے کہا کہ مو لا نا اپنا کھا نا تقسیم کردیتے ہیں اِس لیے تندرستی گرتی جا رہی ہے ۔تو اُنہوں نے پہلے تو یہ کہا کہ میں کیا کروں قاعدہ یہی ہے پائو بھر گوشت مل سکتا ہے لیکن دُوسرے دِن آکر وزن کیا اَورتندرستی گر تے دیکھ کرپا ئو بھر گوشت اَور بڑھا دیا اِس کے مطابق مو لانا کاخرچہ اَور بڑھ گیا اَور لوگ بھی کھانے میںشریک ہونے لگے ۔ ایک روزایک قیدی نے آکر فریا د کی کہ نما ز پڑھتے وقت میرے پاس فلاں قیدی بھی تھا اُس نے میری اَٹھنِّی چرالی (کیونکہ اُس وقت جیل کی اَٹھنی پندرہ روپے کے برابر تھی) مو لانا نے کہا میں بھی تو تمہا ری طرح قیدی ہوں لیکن جب اُسے زیا دہ رنجیدہ دیکھا تو