ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
''ملتان کے نشتر ہسپتال کے آئی سی یو میں ڈیوٹی ڈاکٹر شکیل کو وہاں کے چوہے نے کاٹ لیا اَور آئی سی یو کے اَندر ہی رُوپوش بھی ہو گیا ۔'' مجھے تو اِس خبر سے پہلے کی طرح دُکھ ہوا مگر کھٹملوں کے شکار بہت سے لواحقین کی تکلیف یہ خبر پڑھ کر ہلکی ہوگئی ہوگی کہ چلو جس مصیبت کے ہم شکار ہوئے ڈاکٹر بھی اُس کا شکارہوگئے۔ دیگر ہسپتالوں کا حال اِس سے بھی بد تر ہے بلکہ جتنا بڑا ہسپتال ہوتا ہے ہمارے یہاں اُتنا ہی اُس کا گراف گِراہوا ہوتا ہے حالانکہ سب سے اُونچے گراف کے ڈاکٹر یہاں مقرر کیے جاتے ہیں، چار پانچ برس پہلے میں میو ہسپتال کے آئی سی یو میں آوارہ بلیوں کی بے تکلف آمدورفت کا مشاہدہ بچشم ِخود کرچکا ہوںایک دفعہ کو یوں لگا کہ جیسے قصاب کی دُکان کا پچھواڑا ہے موقع پر موجود ڈاکٹر اَور نرسوں کے روّیہ سے بلیوں کے خلاف کسی بھی درجہ کی نا پسندیدگی یا پشیمانی ظاہر نہیں ہو رہی تھی اَور جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت کے مشہور ڈاکٹر جو کہ ایم ایس بھی تھے آئی سی یو میں بنفس ِنفیس تشریف لائے ہوئے تھے۔ مشاہدہ ہے کہ پاک سر زمین کے باسیوں کو حسن ِکار گردگی سے بیر ہے اپنے اپنے میدانوں کے ماہر ہونے کے باوجود کار گزاری بالکل منفی ہے۔ جبکہ دُوسری طرف یہ حال ہے کہ دینی اِداروں کے خلاف بے بنیاد اِلزامات لگا کر یہ کہا جا رہا ہے کہ اِن میں اصلاحات کر کے قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے حالانکہ دینی اِداروں کو چلانے والے ماہرین اپنے تعلیمی اِداروں کو چلانے میں سو فیصد کامیاب ہیں وسائل کی کمی بلکہ فقدان کے باوجود بہتر سے بہتر کارگزاری کی مثالیں کھلی آنکھوں سے ملک بھر میں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے جامعہ مدنیہ جدید میں ایجنسیوں کے اہلکار آئے ہوئے تھے اُس وقت موجود اَساتذہ سے کسی معاملہ میں تحریر مانگی جب وہ تحریر دینے لگے تو بولے کہ یہ (پرائی زبان ) انگریزی میں ہونی چاہیے۔جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل ایک مدرس نے اُسی وقت انگریزی تحریر لکھ کر اُس کے ہاتھ میں تھمادی تو کچھ دیر اُس کو گھور کر دیکھا اور معاملہ کی اہمیت اَور اپنی اَوقات کے واضح ہوتے ہی ذمہ دار اہلکار نے خفت مٹاتے ہوئے اُن سے درخواست کی کہ جناب مجھے ذرا اِس کا ترجمہ سنادیں۔ کسی نے سچ کہا کہ'' کوّا چلا ہنس کی چال اپنی سے بھی گیا''