ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
د : پورا صوبہ بنگال جس کا دارالحکومت کلکتہ کا عظیم شہر ہوتا مسلم اکثریت کے زیرِاقتدار رہتا ہ : صوبہ دہلی اور صوبہ آسام کی سیاست اور حکومت میں مسلمانوں کا تقریباً مساوی حصّہ ہوتا کیونکہ اِن دونوں صوبوں میں مسلمان٣٤، ٣٥فیصد ی تھے ۔ و : ہندوستان کے باقی صوبوں میں مسلمان لاوارث یتیم کی طرح نہ ہوتے کیونکہ نمبر ١ : ملازمتوں اور اسمبلیوں میں اِن کا حصہ حسب ِسابق ٣٠ یا ٣٣ فیصدی ہوتا ۔ نمبر ٢ : وزارتوں میں اِن کی مؤثر شمولیت ہوتی۔ نمبر ٣ : مذہبی اور تمام فرقہ وارانہ اُمور میں اِن کو حق استردادہوتا ۔ نمبر ٤ : وہ ایسے مرکز کے ماتحت ہوتے جس میں اِن کی تعداد مساوی ورنہ کم اَز کم ٣٣ فیصدی ہوتی اور تمام فرقہ وارانہ اُمور کی باگ ڈور اِن کے ہاتھوں میں ہوتی کیونکہ اسمبلی پارلیمنٹ یا کیبنٹ مسلم ممبران کی موافقت کے بغیر کوئی فیصلہ صادر نہ کر سکتی ۔ اِس فارمولے کو اُس پر آشوب دور میں مسلمانوں کی اکثریت نے یا تو سُنا ہی نہیں اور اگر سُنا تو جذبات میں اِس درجہ وارفتہ تھے کہ سمجھنے کی کو شش نہیں کی۔بہرحال ''مضی ما مضی'' اَب اِس داستانِ پارینہ سے کیا فائدہ ؟مگر مجاہد ِملّت رحمة اللہ علیہ کے حالات کے تذکرہ میں اِس کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ کل نہیں تو آج اَندازہ ہوسکے کہ مخالفت کرنے والے کہاںتک حق پر تھے اَور مجاہد ِ ملت کی سر فروشانہ جان فشانی کس مقصد کے لیے تھی۔ جمعیة علمائِ ہند کا فارمولا ایک مثبت فارمولا تھا اَور جمعیة علمائِ ہند کے اَرکان کو اِس پر اِتنا وثوق اور یقین تھاکہ وہ ہر ایک کے سامنے اِس کو پیش کر سکتے تھے ۔چنانچہ وزارتی مشن آیا توجمعیة علمائِ ہند کے نمائندہ حضرات نے اِس کو نہ صرف یہ کہ پیش کیا بلکہ اِس پر مشن کی پسندیدگی بھی حاصل کی۔ مولانا آزاد مرحوم نے اپنی مشہور کتاب ''اِنڈیا وِنس فریڈم '' میں واضح کردیا ہے کہ اِن کا پیش کردہ فارمولا ''وزارتی مشن ''نے منظور کر لیا تھا۔ یہی وہ فارمولا ہے جس کو مولانا آزاد نے پیش فرمایا تھا ۔مزید تفصیل چند سطروںکے بعد