ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
ہی ملک کے دو حصّے جن کے متعلق اَب یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی حصّہ کا کامیاب دفاع اور تحفظ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اُن دونوں کی فوجی کمان ایک نہ ہو ۔یہ دو حصّے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں تیر و ترکش سنبھالے ہوئے ہیں اور مالیہ کا بڑا حصّہ جو تعمیر و ترقی یا کسی بیرونی طاقت کے مقابلہ پر دفاعی طاقت کے مضبوط بنانے میں صرف ہوتا،اپنے ہی ہاتھ پاؤں کے بچاؤ پر صرف ہو رہا ہے اور یہ صورت کہ بھارت کی مسلم اقلیت غضبناک اکثریت کے شکنجہ میں کَسی ہوئی بے یارومددگار وَاویلا کر رہی ہے ،یہ افسوسناک صورت بھی پیش نہ آتی ۔غور فرمائیے جمعیة علمائِ ہند کے فارمولے کے اہم اجزاء یہ تھے : (١) صوبے خودمختار ہوں۔ (٢ ) مرکز کو صرف وہی اختیارات ملیںجو تمام صوبے متفقہ طور پر مرکز کے حوالے کردیں اورجن کا تعلق تمام صوبوں سے یکساں ہو ۔ (٣) اُن مشرکہ اختیارات کے علاوہ جن کی تصریح مرکز کے لیے کر دی گئی ہو باقی تمام تصریح کردہ اور غیر مصرحہ اختیارات صوبوں کے حوالے ہوں۔ (٤) مرکز کی تشکیل ایسے تناسب سے ہو کہ اکثریت اقلیت پر زیادتی نہ کر سکے مثلاً پارلیمنٹ کے ممبروں کی تعداد کا تناسب یہ ہو: ہندو : ٤٥ مسلمان : ٤٥ دُوسری اقلیتیں : ١٠ ( ٥) جس مسئلہ کے متعلق مسلم ممبران کی اکثریت فیصلہ کر دے کہ اِس کا تعلق مذہب سے ہے وہ پارلیمنٹ میں پیش نہ ہوسکے ۔ اِس فارمولے کا مفاد یہ ہوتا : الف : اہم پورٹ فولیو (قلمدان وزارت ) کی تقسیم مساوی طور پر ہوتی ۔ ب : صوبہ سرحد ، صوبہ سندھ ، صوبہ بلوچستان اور اگر کشمیر کو ایک صوبہ کی حیثیت دی جاتی تو صوبہ کشمیر ، مذہبی ، معاشی، تہذیبی اور تمدنی اُمور میں قطعاً خود مختار ہوتے ۔ ج : پورا صوبہ پنجاب راولپنڈی سے لے کر ضلع سہارنپور کی سرحد تک ۔