ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
یا اپنی سیاسی آزادی یا اپنی تہذیب و ثقافت پر مخالفانہ اَثر اَنداز قرار دے تو وہ بِل یا تجویز ایوان میں پیش یا پاس نہ ہو سکے گی۔ (٣) ایک ایسا سپریم کورٹ قائم کیا جائے جس میں مسلم و غیر مسلم ججوں کی تعداد مساوی ہو اورجس کے ججوں کا تقرر مسلم و غیر مسلم صوبوں کی مساوی تعداد کے اَرکان کی کمیٹی کرے،یہ سپریم کورٹ مرکز اور صوبوں کے درمیان تناز عات یا صوبوں کے باہمی تنازعات یا ملک کی قوموں کے تنازعات کے آخری فیصلے کرے گا۔ نیز تجویز ٢کے ماتحت اگرکسی بِل کے مسلمانوں کے خلاف ہونے نہ ہونے میں مرکز کی اکثریت مسلم اَرکان کی ٣/٢ اَکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرے تو اُس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے کرایا جائے گا ۔ (٤) یا اَور کوئی تجویز جسے فریقین باہمی اتفاق سے طے کریں ۔ نوٹ (١) : مندرجہ بالا تجویز الف سے بشمول '' د '' تک اجلاس منعقدہ ٤٢ء میں پاس ہو چکی تھی ، اِس پر مجلس ِعاملہ جمعیة علماء ِہند نے اپنے اجلاس منعقدہ ٣١ جنوری یکم و دوم فروری ١٩٤٥ء میں تشریح کا اضافہ کیا۔ اِس کے بعدیہ پوری تجویز مع تشریح جمعیة علمائِ ہند کے چودہویں اجلاسِ عام بمقام سہارنپور منعقدہ ٤۔٥۔٦۔٧ مئی میں منظور کی گئی ۔ نوٹ (٢) : اِس تجویز کے ساتھ اگر مجلس ِعاملہ جمعیة علماء ِہند کے اجلاس سہارنپور منعقدہ٣ اگست ١٩٣١ء کے فارمولا کی مندرجہ ذیل دفعات بھی پیش ِنظررہیںتو آزاد ہندوستان میں آزاد اِسلام کا نقشہ ہر مسلمان کے سامنے آسکتا ہے اور وہ باآسانی یقین کر سکتا ہے کہ جمعیة علمائِ ہند کی تائید و حمایت سے نہ صرف یہ کہ پاکستان ہندوستان کے چند گوشوں میں سمٹ کر رہ جائے بلکہ پورا ہندوستان ایسا پاکستان بن سکتا ہے جس میں شرعی محکمے اور دارُالقضاء قائم ہوں اور پرسنل لا (یعنی شرعی احکام) کا نفاذ مسلمانوں کے کامل اور آزاد اختیارات کے ذریعہ سے پورے ہندوستان میں نافذ ہو۔