ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2009 |
اكستان |
|
میں پیش کر کے دُعائیں لیتا، ڈاکٹر صاحب گاہے بگاہے اُردو بازار تشریف لایا کرتے تھے اکثر ایسا ہوتا کہ آپ اُردو بازار تشریف لاتے تو راقم الحروف کے مکتبہ پر بھی ضرور قدم رَنجہ فرماتے۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فن میں مہارت عطافرمائی تھی اور آپ کے ہاتھ میں شفاء رکھی تھی، آپ کی تشخیص اور تجویز عموماً صحیح ہوتی تھی، راقم الحروف کو اِس کا تجربہ اِس طرح ہوا کہ فروری ٢٠٠٠ء میں جب احقر کی کافی طبیعت خراب ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کی طرف رجوع کیا، ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح سے چیک اَپ کرکے بتلایا کہ دِل پر دباؤ ہے، اِسی کی آپ نے دوا تجویز فرمائی۔احقر نے مزید تسلی کے لیے ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر راشد رَندھا وا صاحب کو دکھایا تو اُنہوں نے بھی مختلف ٹیسٹوں کے بعد وہی تشخیص کی جو ڈاکٹر افتخار صاحب بغیر کسی ٹیسٹ کے کر چکے تھے اور دوائی بھی تقریباً وہی تجویز کی جو اِس سے پہلے ڈاکٹر صاحب تجویز فرما چکے تھے۔ اِس کے بعد تو آپ سے تعلق کیساتھ عقیدت بھی ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب گھر والوں کو ڈاکٹر صاحب کے علاج پر اِس قدر اعتماد ہوگیا تھا کہ کسی بھی تکلیف میں آپ کے پاس جاکر دِل کو سکون اور اطمینان ہوجاتا تھا، آپ کی وفات پر ہم سب گھر والوں کو دلی صدمہ اور اَفسوس ہوا اور یو ں محسوس ہونے لگا جیسے ہم علاج و معالجہ میں یتیم ہوگئے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ذات ہمارے لیے ایک بڑی ڈھارس تھی افسوس کہ اَب وہ ڈھارس ختم ہوگئی، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہ مَااَعْطٰی وَکُلّ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی ۔ ڈاکٹر صاحب کافی عرصہ سے عارضۂ قلب اور دیگر امراض کا شکار تھے، تقریباً اَسی برس عمر ہوچکی تھی اور صحت روز بروز گرتی جارہی تھی یہاں تک کہ پیام ِ اَجل آگیا اور ٤ صفر المظفر ١٤٣٠ ھ/ ٣١ جنوری ٢٠٠٩ بروز ہفتہ آپ نے جان جاں آفریں کے سپرد کردی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اِسی روز عصر کی نماز کے بعد آپ کی نماز ِ جنازہ ہوئی اور قبرستان میانی صاحب میں حضرت طاہر بندگی کے جوار میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ نے اپنے پسماندگان میں اہلیہ، تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی چھوڑی، اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی بال بال مغفرت فرماکر آپ کو اپنے جوار ِ رحمت میں جگہ عطافرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبر کی توفیق نصیب ہو ، آمین یَا اِلٰہَ الْعَالَمِیْنَ آمین۔