ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
(٣) مولوی احمد رضا خان صاحب نے قبر پر اَذان دینے کو جائز پھر مستحب پھر سُنّت کہنے پر جتنے دلائل قیاس اَور اٹکل سے تجویز کیے ہیں اُن دلائل کو اَذان سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے بلکہ تمام عبادات میں جتنی بدعتیں جاری ہوسکتی ہیں اُن سب بدعات پر یہ دلائل معمولی تبدیلی سے منطبق ہوسکتے ہیں پھر اَذان کی کیا خصوصیت رہ جائے گی مثلاً ایک بدعت پسند مولوی کہتا ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے لیے آنے والے نمازی نماز شروع کرنے سے پہلے بلند آواز سے مل کر پچاس دفعہ دُرود اَور سلام پڑھا کریں جو نہ پڑھے گا وہ وہابی اَور تارکِ سُنّت ہے۔ ایک اَور مولوی صاحب پانچ نمازوں کے ساتھ چھٹی نماز تجویز کرتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ اِس چھٹی نماز کی ہر رکعت میں دو رکوع اَور چار سجدے کیے جائیں۔ ایک بدعتی صاحب یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے قرآن مجید کا ختم کرائے ورنہ تارکِ سُنّت ہے۔ ایک بدعتی صاحب اِس بنیاد پر کہ نجاست اَور غلاظت کے مقام پر شیاطین رہتے ہیں اَور حدیث سے بھی ثابت ہے تو پاخانہ میں جاتے وقت نوکر کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک میں پاخانہ میں ٹھہروں تم بلند آواز سے اَذان کہتے رہو جیسا کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب نے اِس رسالہ میں بہت زُور دیا ہے کہ اَذان سے شیطان بھاگتے ہیں اِس لیے یہ اَذان بھی سُنّت ہونی چاہیے۔ نیز صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جماع سے پہلے اللہ کا نام لے کر شیطان سے بچنے کی دُعا کرنی چاہیے معلوم ہوا کہ اُس وقت بھی شیطان کا خطرہ ہے اِس لیے ایک بدعتی مولوی صاحب یہ نیا مسئلہ نکالتے ہیں کہ جماع سے پہلے شیطان کی شرارت سے بچنے کے لیے اَذان بلند آواز سے کہنا چاہیے۔ اَب ہم مولوی احمد رضا خان صاحب کا دین و مذہب رکھنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اِن تمام مسائل کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ فاضل ِ بریلوی نے قبر پر اَذان کو جائز کرنے کے لیے جتنے دلائل قائم کیے ہیں وہ تمام کے تمام یا اکثر دلائل اِن بدعات پر جاری ہوسکتے ہیں بلکہ ہر بدعت چونکہ دین کا لباس پہن کر آتی ہے اِس لیے اِن دلائل سے ہر بدعت جائز ہوسکتی ہے۔ اگر قبر پر اَذان جائز ہوسکتی ہے تو یہ تمام چیزیں بھی جائز ہونی چاہئیں اَور جناب اِن چیزوں میں حرج بھی کیا ہے؟ شریعت میں اِن کو منع بھی نہیں کیا گیا۔ قرآن و حدیث اور فقہ اِن مسائل کی موجودہ شکل کے متعلق خاموش ہیں۔ ٤۔ قبر پر اَذان کی ضرورت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آج دُنیا میں نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے بلکہ آنحضرت ۖ ،صحابہ، تابعین، تبع تابعین، مجتہدین، بزرگانِ دین کے ہر زمانہ میں یہ ضرورت پیش آتی رہی ہے۔ آج