ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
حضرت اَقدس کا خط باسمہ سبحانہ' محترمی و مکرمی دام مجدکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ' گرامی نامہ موصول ہوا۔ اِس میں اَور بہت سی نئی باتیں آگئی ہیں اِن کے جواب میں تو اَصل بات مخلوط ہوکر رہ جائے گی اِس لیے صرف ایک دو باتوں کی طرف توجہ دِلائوں گا اَور پہلے ہی کی طرح اختصار کروں گا۔ دراصل میرے نزدیک تو حدیث ِ تزوج خبرِ مشہور کا درجہ رکھتی ہے اَور جناب نے پہلے ہی اختیار دے رکھا ہے کہ کوئی اختلاف ِ رائے کرتا ہے تو کرے اُسے حق ہے اِس لیے مجھ سے جناب جب کوئی سوال کریں گے تو میرا جواب اپنے نقطۂ نظر سے ہوگا پھر اَور باتیں چل پڑیں گی جن کی وجہ سے آپ کی پوری بات سامنے نہ آسکے گی۔ میں نے جو سوال کیا تھا وہ یہ تھا کہ جناب کے پاس ایسی دلیلیں جو نہ ٹوٹ سکتی ہوں کیا ہیں؟ اور اُن میں سے وزنی دلیل کونسی ہے؟ میری گزارش کا جواب جناب نے تحریر فرمانا شروع کیاہے وہ جناب پورا کرلیں میں اُس کا بلکہ اگر ایک سے زائد چند ایسی دلائل ہوں تو اُن سب کے مطالعہ کا خواہاں ہوں۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے : ''اگر آپ کو میرا یہ اِستدلال قبول ہے تو دُوسرا مقدمہ شروع کروں گا'' ٭ نہیں۔ بلکہ آپ لکھتے رہیں تاکہ مکمل دلیلیں سامنے آسکیں۔ اَب زائد معروضات میں یہ دوباتیں لکھ رہاہوں یہ باتیں گرامی نامہ لکھتے ہی محسوس ہوئیں توجہ دلانی مقصود ہے ،جواب وغیرہ نہیں۔ (١ ) سفیان بن عیینہ اگرچہ وطنًا کوفی ہیں مگر مکہ مکرمہ میں زندگی گزاری ہے محدثِ حرم رہے ہیں وہیںاُنہوں نے اپنی کتاب تصنیف فرمائی ہے ١ وہیں امام شافعی رحمة اللہ علیہما نے اُن سے پڑھا ہے یہ تفصیل ١ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ بْنِ اَبِیْ عِمْرَانَ مَیْمُوْنِ الْھلَالِی اَبُوْ مُحَمَّدِ الْکُوْفِیْ سَکَنَ مَکَّةَ وَقِیْلَ اِنَّ اَبَاہُ عُیَیْنَةَ ھُوَ الْمَکِّیُّ اَبَا عِمْرَانَ۔مَاتَ سَنَةَ ثَمَانٍ وَّتِسْعِیْنَ وَمِائَةٍ قَالَ ابْنُ مَھَدِیْ کَانَ اَعْلَمُ النَّاسِ بِحَدِیْثِ اَھْلِ الْحِجَازِ وَکَانَ انْتِقَالُہ مِنَ الْکُوْفَةِ اِلٰی مَکَّةَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَّسِتِّیْنَ فَاسْتَمَرَّ بِھَا اِلٰی اَنْ مَّاتَ۔ تھذیب التھذیب ۔ اُنظر المحدث الفاصل ص ٢٢٤ و ص ٦١٢