ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
یہی لکھا ہے اِنَّمَا کَبَّرَ عِنْدَ وُقُوْعِ التَّفْرِیْجِ عَنْ سَعْدٍ یعنی تکبیر تو اُس وقت فرمائی تھی جب حضرت سعد پر قبر کھل چکی تھی۔ اصلی چیز جس سے قبر کھلتی ہے وہ تو تسبیح ہے جس میں آپ ۖ دیر تک مشغول رہے۔ اہل ِ بدعت نے اصلی چیز کو چھوڑدیا اَور تکبیر پر اَذان کا حاشیہ چڑھادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تکبیر تو کسی عظیم الشان قدرت کو دیکھ کر بے اِختیار زبان پر آجاتی ہے۔ معافی مانگنے کا لفظ تو سُبْحَانَ اللّٰہِ ہے جیسا کہ آیت ِ کریمہ میں ہے۔ نیز فرشتوں نے کہا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَا۔۔ الآیة قرآنِ کریم میں یہ استعمال بہت ہے۔ ع تنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا ٣۔ اَذان میں لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بھی ہے۔ اِس سے میت کی تلقین بھی ہوجاتی ہے لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ کا حقیقی محمل یہی ہے۔ جواب : میت کی تلقین اگر شرعی چیز ہوتی تو سلف ِ صالحین کیوں اِس سے محروم رہتے؟ ملا علی قاری فرماتے ہیں : مروجہ تلقین سلف میں نہ تھی بلکہ یہ نئی ایجاد ہے اِس لیے حدیث کو اِس پر محمول نہ کرنا چاہیے۔ تلقین کی بحث گزرچکی ہے۔ اِس کے بعد مولوی صاحب کی کوئی دلیل اِس قابل بھی نہیں جسے قبر پر اَذان دینے کے ساتھ دُور کا بھی واسطہ ہو اِس لیے سرِ دست یہ بحث ختم کی جاتی ہے اَور بریلوی حضرات کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جاتے ہیں : (١) حنفی فقہاء میں سے کسی قابل ِ ذکر شخص کا نام لیں جو دفن کے بعد اَذان کو جائز قرار دیتا ہو۔ اگر ایک شخص بھی نہ ملے تو خدا کا خوف کیجیے دین میں تصرف کرنے کا اختیار آپ لوگوں کو کہاں سے مل گیا؟ (٢) ذکر کی دو قسمیں ہیں : (الف) عام اَذکار جو کسی وقت اَور جگہ سے خصوصیت نہیں رکھتے۔ (ب) خاص ذکر جو خاص قیود شرائط، خاص اَوقات اَور مناسک سے مخصوص ہیں اُن میں خاص خاص شرعی ہدایات ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اَذان آپ لوگوں کے خیال میں عام ذکر ہے یا خاص؟ اگر عام ہے تو شریعت میں نمازِ عید، نمازِ جنازہ، نمازِ کسوف، نمازِ خسوف، نمازِ استسقاء وغیرہ کے لیے اِس کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ اور اگر خاص قسم کا ذکر ہے تو اِس کے ہر جگہ استعمال کی اجازت آپ کہاں سے لائے ہیں؟