ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
خلاصہ یہ ہے کہ اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تمام خیالات باطل ہیں بلکہ نقل کے خلاف ہونے کے علاوہ عقل کے بھی خلاف ہیں۔ ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : من گھڑت اور ایجاد کردہ باتوں کی کوئی بنیاد تو ہوتی نہیں لیکن جب جاہلوں یا اُن کے گمراہ کن رہنمائوں سے اِن باتوں کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جو عوام میں مشہور ہو گئی ہیں تو وہ من گھڑت روایتیں اورغلط سلط دلیلیں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ صفر کے مہینے کے منحوس ہونے کے متعلق بھی اِسی قسم کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ ۔ (موضوعات ملا علی قاری ص ٦٩) '' جو شخص مجھے (یعنی بقول اُن لوگوں کے حضور ۖ کو )صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا میں اُس کو جنت کی بشارت دُوں گا''۔ اِس روایت سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کے منحوس اور نامراد ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں نحوست تھی اِسی لیے تو نبی ۖ نے صفر صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی بشارت دی ہے۔ اِس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اوّل تو یہ حدیث ہی صحیح نہیں بلکہ من گھڑت اورموضوع ہے یعنی حضور ۖ سے صحیح سند کے ساتھ اِس کا ثبوت نہیں بلکہ بعد کے لوگوں نے خود گھڑ کر اِس کی نسبت آپ ۖ کی طرف کردی ہے ، چنانچہ خود ملاعلی قاری رحمہ اللہ جو بہت بڑے جلیل القدر محدث ہیںوہ اسے اپنی کتاب ''الموضوعات الکبیر''میں درج فرماکر اِس کو بے بنیاد اوربے اَصل قرار دے رہے ہیں ۔ دُوسرے اِس من گھڑت روایت کے مقابلے میں بے شمار صحیح احادیث صفر کے منحوس اور نامراد ہونے کی نفی کررہی ہیں لہٰذا صحیح احادیث کے مقابلہ میں موضوع (من گھڑت )روایت پیش کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ تیسرے بذاتِ خود اس روایت میں صفر کے مہینہ کے منحوس ہونے کی کوئی دلیل بلکہ اِشارہ تک بھی نہیں، لہٰذا اِس روایت کے الفاظ سے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا صرف اپنا اختراع اورخیال ہے، چنانچہ اس روایت کے الفاظ پر غور کرنے سے ہر صاحب ِعقل اِس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ چوتھے تھوڑی دیر کے لیے اِس روایت کے