ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ٭ بجز رضائے الٰہی اور توجہ الی الذات المقدسہ (اللہ کی ذات)کوئی چیز مقصودِ اصلی نہ ہونی چاہیے یعنی بے چینی اور طلب اسی کی ہونی اور رہنی چاہیے مگر اِس کے یہ معنٰی نہیں ہیں کہ درباشاہی سے جو اِس کے سوا ملے تو اُس کو رد کردیا جائے اِنَّ اللّٰہَ تَصَدَّقَ عَلَیْکُمْ فَاقْبِلُوْا صَدَقَتَہ بلکہ اس کو سر اور آنکھوں پر رکھیں مگر طلب اور بے چینی صرف مقصد ِ اصلی کے لیے ہو اِس کے سوا جو ملے اس کو لیے رہیں اور طلب مقصودِ اصلی میں سکون نہ ہو۔ جو حالتیں حال میں یا خواب وغیرہ کی پیش آئیں لوگوں سے بیان نہ کیجئے ،ہاں اگر بے اختیاری طور پر کچھ ظاہر ہو جائے تو مضائقہ نہیں ہے ،جو حرکات آواز وغیرہ اور درد محسوس ہوتا ہے وہ آثار ذکر کے ہیں ۔ اپنے مصلح اورہادی سے فائدہ اور اصلاح جب ہی ہوتی ہے کہ آدمی آپنے آپ کو اس طرح سپرد کردے جس طرح مردہ نہلانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے (کَالْمَیِّتِ فِیْ یَدِی الْغَسَّالِ) نیز یک در گیر محکم گیر پر عامل ہو ،یعنی جس شخص کا دروازہ پکڑاہے اُس کو مضبوطی سے پکڑنا چائیے ،آج یہاں کل وہاں نہ ہونا چاہیے ۔ ذکر کے وقت اور دُوسرے اوقات میں گریہ(رونے) کاغلبہ سلسلہ چشتیہ کی نسبت کا ظہور ہے ۔قلب میں دَرد ہونابھی مبارک ہے ۔اگر کسی وقت اس قدر بے چینی بڑھ جائے کہ تحمل نہ ہو سکے تو تھوڑے پانی میں سورہ فاتحہ گیارہ مرتبہ پڑھ کر پی لیا کیجئے۔اِنشاء اللہ سکون ہو جائے گا۔ اپنی کیفیتوں کو جہاں تک ممکن ہو لوگوں پر ظاہر نہ کیجئے ،اگر بے اِختیار طور پر کچھ ظاہر ہو جائے مضائقہ نہیں ہے۔ بیعت توبہ اور بیعت اِرشاد میں فرق ہے ،بیعت توبہ یہ ہے کہ کسی شخص کو الفاظ ِتوبہ تلقین کرائے جائیں اور اُس کو اتباع شریعت کی تاکید کردی جائے ،یہ امر ہر اُس شخص کے لیے صحیح ہے جو کہ عالم باعمل ہو ،خواہ اس