Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009

اكستان

7 - 64
اِستغفار کریں اُن کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے اُن کا گناہ ہی نہیں ہے ۔تو آقائے نامدار  ۖ  قسم کھاکر فرماتے ہیں  وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ  قسم اُس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے  لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا اگر تم گناہ نہ کرو  لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ  تو اللہ تعالیٰ تمہیں تو لے جائیں  وَلَجَآئَ بِقَوْمٍ  اَور ایسے لوگوں کو(تمہاری جگہ) لائیں کہ  یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ  کہ جن سے گناہ ہو اَور وہ خدا سے توبہ کریں تو  فَیَغْفِرُلَھُمْ   ١  اُن کو اللہ تعالیٰ بخشے اپنی بخشش سے نوازے۔ 
 اللہ تعالیٰ کے جو اَسمائے صفات ہیں ننانوے اُن میں''  غَفَّارْ '' بھی ہے یعنی بخشنے والا، اُن میں  ''تَوَّابْ ''بھی ہے توبہ بہت زیادہ قبول فرمانے والا یا بار بار قبول فرمانے والا ،گناہ تو بار بار ہوتا ہے اَور  ''عَفُو''  بھی ہے اللہ کے اَسمائے حُسنٰی میں  اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یہ حدیث کی  دُعاء ہے۔ تو اِن صفات کا تقاضا یہ ہے کہ اِن صفات کا کوئی مَصرف (مظہر)ہو وہ مَصرف یہی ہے اِنسان اَور جنات یہ دو مُکلّف بنادِیے اِن دو کو اپنی مغفرت کا اَور عفو کا مَصرف بنادیا توبہ قبول فرمانے کا تو صفاتِ رحم سے تعلق ہے قریب قریب ۔اِس لیے رسول اللہ  ۖ  نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا وجود قدرتی طور پر عقلی طور پر بھی سمجھ میں آتا ہے جب اللہ کی یہ صفات ہیں تو اِن صفات کا کہیں استعمال تو ہوتا ہوگا تو وہ استعمال تم پر ہورہا ہے لیکن اگر تم فرشتے بن جائو یا جانور بن جائو تو پھر اللہ ایسی مخلوق اَور پیدا فرمادیں گے کہ جو گناہ اَور توبہ دونوں کام کریں گے۔ 
گناہوں کا اعتراف ضروری ہے مگر صرف اللہ کے سامنے  :
رسول اللہ  ۖ  فرماتے ہیں  اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ  بندہ جب گناہ کا خدا سے اِقرار کرلیتا ہے  ثُمَّ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ  ٢  پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔ تو جس بندے سے گناہ کا صدو ر ہوا ہو اُس کے اعتراف کا مطلب کیا ہے کیا وہ کسی کے سامنے اعتراف کرے جاکر؟ نہیں کسی کے سامنے نہیں کرے گا اعتراف، کسی دُوسرے کو بتلانا اپنے گناہ کو کہ یہ گناہ میں نے کیا ہے یہ منع ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے  اِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ  یعنی یہ بندے کی بے پرواہی کی بات ہے کہ وہ خدا کی رحمت سے بے پرواہ ہونا ظاہر کررہا ہے اپنا کہ اللہ تعالیٰ نے تو اُس کے گناہ پر رکھا ہے پردہ اَور وہ اپنا پردہ خود کھول رہا ہے کہتا ہے میں
    ١   مشکوة شریف  ص٢٠٣    ٢  ایضاً

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 درس حدیث 5 1
4 اِنسان گناہ کیوں کرتا ہے ؟ : 6 3
5 گناہوں کا اعتراف ضروری ہے مگر صرف اللہ کے سامنے : 7 3
6 بار بار گناہ کرنے والوں میں یا توبہ کرنے والوں میں شمار ہو گا ؟ : 8 3
7 اللہ کی رحمت نہ ہو تو معمولی بات بھی بڑاگناہ بن سکتی ہے : 9 3
8 دربارِ رسالت ۖ کا اَدب : 9 3
9 بڑی غلطی وہ ہے جو اللہ کی نظر میںبڑی ہو : 10 3
10 ملفوظات شیخ الاسلام 11 1
11 وفیات 12 1
12 حضرت عائشہ کی عمر اور حکیم نیاز احمد صاحب کا مغالطہ 13 1
13 حضرت اَقدس کا خط 19 1
14 حضرت اِبراہیم رضی اللہ عنہ 21 1
15 بو بکر و عمر ، عثمان و علی رضی اللہ عنہم 31 1
16 تربیت ِ اَولاد 32 1
17 بچوں کی پرورش سے متعلق احادیث ِنبویہ 32 16
18 بچوں کی پرورش میں مصیبتیں جھیلنے اوردُودھ پلانے کی فضیلت : 32 16
19 لڑکیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت : 33 16
20 حمل ساقط ہوجانے اورزچہ بچہ کے مر جانے کی فضیلت : 33 16
21 دفن کے بعد اَذان کہنے کا مسئلہ 35 1
22 دفن کے بعد شرعی طور پر کیا کرنا چاہیے ؟ : 35 21
23 حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نزع کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت میں فرمایا 35 21
24 ۔ اصل اَشیاء میں حرمت ہے یا اَباحت یا توقف؟ 45 21
25 گلدستہ ٔ اَحادیث 46 1
26 پانچ دُعائیں قبول کی جاتی ہیں : 46 25
27 حضور علیہ الصلوة والسلام پانچ چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے : 46 25
28 حضور اَکرم ۖ کی طرف سے پانچ چیزو ں کا حکم : 47 25
29 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 48 1
30 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 48 29
31 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 48 29
32 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 49 29
33 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 51 29
34 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 52 29
35 بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ : 54 29
36 غیر مقلدین حضرات سے رفع ِیدین سے متعلق دس سوالات 56 1
37 دینی مسائل 61 1
38 ( طلاق دینے کا بیان ) 61 37
39 طلاقِ صریح اور طلاقِ بائن سے متعلق ایک ضابطہ : 61 37
40 رُخصتی سے قبل طلاق کا بیان : 61 37
41 بقیہ : دفن کے بعد اَذان کہنے کا مسئلہ 62 21
Flag Counter