Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009

اكستان

41 - 64
قبر میں اُتارتے وقت اَذان کہنا کسی نامعلوم شخص نے سُنّت کہا ہے اور اِس کی تردید میں یہ دو بڑے بڑے فقیہ موجود ہیں۔ خدا کے لیے دیکھیے یہ مسئلہ کتنا کمزور ہے مگر حیرانی ہے کہ مولوی صاحب اِتنا اقرار کرنے کے باوجود ضد پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔  ع
جو شاخِ نازُک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا 
چوبیس صفحات کا رسالہ ہے اِس میں کوئی عبارت ایسی نہیں ہے جس میں دفن کے بعد اَذان کہنے کا حکم ہو تمام قیاسات ہیں وہ بھی مہمل چند الفاظ میں رسالہ کا نمونہ دیکھ لیجیے، فرماتے ہیں  : 
١۔  قبر میں شیطان کے گمراہ کرنے کا خطرہ ہے اور اَذان سے شیطان بھاگتا ہے اِس لیے اَذان  کہنی چاہیے۔ 
جواب  :  موت کے بعد اِنسان سے شیطان اَور نفس کی کشش ختم ہوجاتی ہے جیسا کہ امام غزالی  رحمة اللہ علیہ نے اِحیاء العلوم ج٣ ص ٢٦ میں فرمایا ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزل میں شمار ہوتی ہے۔ 
حدیث میں شرِ شیطان سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا سے دل پر شیطان کا جو اَثر لے کر آیا تھا اُس سے خداوند ِتعالیٰ بچائیں اور اَذان میں جو شیطان کو بھگانے کی تاثیر ہے وہ اِس صورت میں ہے کہ فرض نماز کے لیے اَذان کہی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے  اِذَا اُذِّنَ لِلصَّلٰوةِ  ……  الخ 
٢۔  حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد آپ  ۖ  نے دیر تک  سُبْحَانَ اللّٰہِ  پڑھا۔ صحابہ نے بھی آپ  ۖ  کی اِتباع میں پڑھا۔ پھر آپ  ۖ  نے  اَللّٰہُ اَکْبَرُ  کہا اَور صحابہ نے بھی کہا۔ اَذان میں بھی  اَللّٰہُ اَکْبَرُ  ہے اِس لیے اَذان کہنا چاہیے۔ 
جواب  :  حضرت جابر کی حدیث میں تو اَذان کا نام تک نہیں صرف تسبیح اَور تکبیر کا ذکر ہے۔ کیا اذان میں تسبیح بھی آجاتی ہے؟ اَور حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر کی گُھٹن اَور تنگی دُور کرنے کے لیے اصلی چیز تسبیح تھی جب حضرت سعد پر آسانی ہوئی تو آپ  ۖ نے خوشی میں آکر تکبیر فرمائی تھی، حدیث کے لفظ یہ ہیں  فَسَبَّحْنَا طَوِیْلًا ثُمَّ کَبَّرَفَکَبَّرْنَا  ہم دیر تک  سُبْحَانَ اللّٰہِ  پڑھتے رہے پھر حضور علیہ السلام نے  اَللّٰہُ اَکْبَرُ  کہا تو ہم نے بھی اَللّٰہُ اَکْبَرُ  کہا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں  کُلُّ التَّکْبِیْرِ کَانَ بَعْدَ التَّفْرِیْجِ  یعنی تکبیر تو قبر کھل جانے کے بعد کہی گئی تھی۔ علامہ ابن ِ حجر مکی رحمة اللہ علیہ نے بھی شرح مشکٰوة میں
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 درس حدیث 5 1
4 اِنسان گناہ کیوں کرتا ہے ؟ : 6 3
5 گناہوں کا اعتراف ضروری ہے مگر صرف اللہ کے سامنے : 7 3
6 بار بار گناہ کرنے والوں میں یا توبہ کرنے والوں میں شمار ہو گا ؟ : 8 3
7 اللہ کی رحمت نہ ہو تو معمولی بات بھی بڑاگناہ بن سکتی ہے : 9 3
8 دربارِ رسالت ۖ کا اَدب : 9 3
9 بڑی غلطی وہ ہے جو اللہ کی نظر میںبڑی ہو : 10 3
10 ملفوظات شیخ الاسلام 11 1
11 وفیات 12 1
12 حضرت عائشہ کی عمر اور حکیم نیاز احمد صاحب کا مغالطہ 13 1
13 حضرت اَقدس کا خط 19 1
14 حضرت اِبراہیم رضی اللہ عنہ 21 1
15 بو بکر و عمر ، عثمان و علی رضی اللہ عنہم 31 1
16 تربیت ِ اَولاد 32 1
17 بچوں کی پرورش سے متعلق احادیث ِنبویہ 32 16
18 بچوں کی پرورش میں مصیبتیں جھیلنے اوردُودھ پلانے کی فضیلت : 32 16
19 لڑکیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت : 33 16
20 حمل ساقط ہوجانے اورزچہ بچہ کے مر جانے کی فضیلت : 33 16
21 دفن کے بعد اَذان کہنے کا مسئلہ 35 1
22 دفن کے بعد شرعی طور پر کیا کرنا چاہیے ؟ : 35 21
23 حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نزع کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت میں فرمایا 35 21
24 ۔ اصل اَشیاء میں حرمت ہے یا اَباحت یا توقف؟ 45 21
25 گلدستہ ٔ اَحادیث 46 1
26 پانچ دُعائیں قبول کی جاتی ہیں : 46 25
27 حضور علیہ الصلوة والسلام پانچ چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے : 46 25
28 حضور اَکرم ۖ کی طرف سے پانچ چیزو ں کا حکم : 47 25
29 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 48 1
30 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 48 29
31 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 48 29
32 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 49 29
33 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 51 29
34 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 52 29
35 بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ : 54 29
36 غیر مقلدین حضرات سے رفع ِیدین سے متعلق دس سوالات 56 1
37 دینی مسائل 61 1
38 ( طلاق دینے کا بیان ) 61 37
39 طلاقِ صریح اور طلاقِ بائن سے متعلق ایک ضابطہ : 61 37
40 رُخصتی سے قبل طلاق کا بیان : 61 37
41 بقیہ : دفن کے بعد اَذان کہنے کا مسئلہ 62 21
Flag Counter