ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
قبر میں اُتارتے وقت اَذان کہنا کسی نامعلوم شخص نے سُنّت کہا ہے اور اِس کی تردید میں یہ دو بڑے بڑے فقیہ موجود ہیں۔ خدا کے لیے دیکھیے یہ مسئلہ کتنا کمزور ہے مگر حیرانی ہے کہ مولوی صاحب اِتنا اقرار کرنے کے باوجود ضد پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ع جو شاخِ نازُک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا چوبیس صفحات کا رسالہ ہے اِس میں کوئی عبارت ایسی نہیں ہے جس میں دفن کے بعد اَذان کہنے کا حکم ہو تمام قیاسات ہیں وہ بھی مہمل چند الفاظ میں رسالہ کا نمونہ دیکھ لیجیے، فرماتے ہیں : ١۔ قبر میں شیطان کے گمراہ کرنے کا خطرہ ہے اور اَذان سے شیطان بھاگتا ہے اِس لیے اَذان کہنی چاہیے۔ جواب : موت کے بعد اِنسان سے شیطان اَور نفس کی کشش ختم ہوجاتی ہے جیسا کہ امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے اِحیاء العلوم ج٣ ص ٢٦ میں فرمایا ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزل میں شمار ہوتی ہے۔ حدیث میں شرِ شیطان سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا سے دل پر شیطان کا جو اَثر لے کر آیا تھا اُس سے خداوند ِتعالیٰ بچائیں اور اَذان میں جو شیطان کو بھگانے کی تاثیر ہے وہ اِس صورت میں ہے کہ فرض نماز کے لیے اَذان کہی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے اِذَا اُذِّنَ لِلصَّلٰوةِ …… الخ ٢۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد آپ ۖ نے دیر تک سُبْحَانَ اللّٰہِ پڑھا۔ صحابہ نے بھی آپ ۖ کی اِتباع میں پڑھا۔ پھر آپ ۖ نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اَور صحابہ نے بھی کہا۔ اَذان میں بھی اَللّٰہُ اَکْبَرُ ہے اِس لیے اَذان کہنا چاہیے۔ جواب : حضرت جابر کی حدیث میں تو اَذان کا نام تک نہیں صرف تسبیح اَور تکبیر کا ذکر ہے۔ کیا اذان میں تسبیح بھی آجاتی ہے؟ اَور حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر کی گُھٹن اَور تنگی دُور کرنے کے لیے اصلی چیز تسبیح تھی جب حضرت سعد پر آسانی ہوئی تو آپ ۖ نے خوشی میں آکر تکبیر فرمائی تھی، حدیث کے لفظ یہ ہیں فَسَبَّحْنَا طَوِیْلًا ثُمَّ کَبَّرَفَکَبَّرْنَا ہم دیر تک سُبْحَانَ اللّٰہِ پڑھتے رہے پھر حضور علیہ السلام نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا تو ہم نے بھی اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کُلُّ التَّکْبِیْرِ کَانَ بَعْدَ التَّفْرِیْجِ یعنی تکبیر تو قبر کھل جانے کے بعد کہی گئی تھی۔ علامہ ابن ِ حجر مکی رحمة اللہ علیہ نے بھی شرح مشکٰوة میں