ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
گمنام شافعی علماء نے اِسے تجویز کیا تھا جس کو شافعی علماء نے ہی بدعت کہہ دیا۔ حنفیوں میں تو اِس مسئلہ کا نشان تک نہیں ملتا اَور شافعی علماء نے بھی صرف قبر میں رکھتے وقت اَذان کہنے کو بدعت کہا ہے دفن کے بعد اَذان کہنے کا تو کہیں نام تک نہیں ہے۔ مولوی احمد رضا خان صاحب اپنے رسالہ'' ایذان الاجر'' کی پہلی سطر میں اِس بات کو تسلیم بھی کرگئے، فرماتے ہیں : ''بعض علمائے دین نے میت کو قبر میں اُتارتے وقت اَذان کہنے کو سُنّت فرمایا ۔'' مگر اَفسوس کہ وہ علماء ناقابل ِ ذکر بلکہ نامعلوم ہیں ورنہ مولوی صاحب حسب ِ عادت اُن کے نام بمعہ اَلقاب ضرور درج کرتے، پھر فرماتے ہیں : ''علامہ ابن ِ حجر مکی اَور خیر الدین رملی نے اِن کا یہ قول نقل کیا۔'' بجا ہے لیکن کس اَنداز میں ذکر کیا؟ اِن لفظوں کو اُردو میں بیان کرنے سے مولوی صاحب جھجکتے ہیں کہ یہ سخت کمزور پہلو ہے۔ یہ تلخ گھونٹ ایک خاص تدبیر کے ساتھ گلے سے اُتارتے ہیں کہ جس بات میں اپنی کمزوری ظاہر ہوتی تھی اُسے عربی میں بیان کیا تاکہ اہل ِ علم کے اعتراض سے بھی بچ جائیں اَور اُردو پڑھنے والے بدظن بھی نہ ہوں، فرماتے ہیں : اَمَّا الْمَکِّیُّ فَفِیْ فَتَاوَاہُ وَفِیْ شَرْحِ الْعبَابِ وَعَارَضَ وَاَمَّا الرَّمْلِیّ فَفِیْ حَاشِیَةِ الْبَحْرِ الرَّائِقِ وَمَرَّضَ۔ علامہ ابن ِ حجر مکی نے اپنے فتاویٰ اَور فتاویٰ شرح عباب میں اُن گمنام بعض علماء کی تر دید کردی ہے( یعنی شافعی مذہب کے جن علماء نے میت کو اُتارتے وقت اَذان کہنا سُنّت کہا ہے علامہ ابن ِ حجر مکی نے اُن کی دلیل کو تسلیم نہیں کیا اُن کی تردید کردی ہے) اور رملی نے اِس مسئلہ کو بیمار قرار دیا ہے۔ ناظرین! یہ عبارتیں آپ ابھی ابھی فتاویٰ شامی کے حوالہ سے پڑھ چکے ہیں۔ دیکھیے مولوی احمد رضا خاں صاحب اپنی زبان سے مانتے ہیں کہ دفن کے بعد اَذان کہنے کا تو کہیں ذکر بھی نہیں۔ البتہ قبر میں اُتارتے وقت بعض ناقابل ِ ذکر لوگوں نے اِسے سُنّت کہا مگر علامہ ابن ِ حجر مکی اور خیر الدین رملی نے تردید کردی۔ مَیّت کو