ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
صاف لکھ دیا ہے کہ دفن کے وقت اَذان کہنا بدعت ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں نے پیدائش کی اَذان پر قیاس کرکے اِسے سُنّت کہا ہے اُنہوں نے غلطی کھائی ہے۔'' اِس کے بعد علامہ نے ایک زرِّیں اُصول بیان کیا ہے جس پر غور کرنے سے بریلویوں کے اَور ہمارے تمام مسائل کا فیصلہ ہوسکتا ہے وہ فرماتے ہیں : ''بعض علماء حنفیہ وغیرہ نے فرض نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے کے موجودہ رواج کے متعلق صاف صاف لکھا ہے کہ یہ مکروہ ہے باوجودیکہ مصافحہ کرنا سُنّت ہے۔ اِس کی وجہ صرف یہ ہے کہ خاص نماز ِفرض کے بعد مصافحہ کرنا کہیں منقول نہیں ہے تو اَب اگرایسا کام پابندی سے کیا جائے تو عام لوگ اِس وہم میں پڑجائیں گے کہ یہ سُنّت ہے اِسی لیے نمازِ رغائب پر جمع ہونے سے لوگوں کو منع کیا گیا ہے جس کو بعض عبادت گزاروں نے ایجاد کیا تھا کیونکہ یہ نماز خاص اُن راتوں میں کہیں منقول نہیں ہے اگرچہ نماز بہترین چیز ہے۔'' اَب یہ سُنیے کہ'' نمازِ رغائب'' کیا ہے؟ بحر الرائق ج٢ ص ٥٣ میں ہے : ''یہاں سے معلوم ہوا کہ صلٰوة الرغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو پڑھی جاتی ہے اُس پر لوگوں کا جمع ہونا مکروہ ہے اور یہ بدعت ہے۔'' واضح ہو کہ بہت سے لوگ مسجد میں جمع ہوکر رجب کے اوّل جمعہ کی رات مغرب اور عشاء کے درمیان ١٢ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھتے تھے اُس زمانہ میں اِس کا رواج چل گیا تھا۔ سوچنا یہ ہے کہ علماء نے اِس سے کیوں منع کیا؟ نفل عبادت کی ہرروز اجازت ہے پھر منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام چیز کو کسی جگہ یا وقت یا مقرر تاریخ پر متعین کرلینا اور اِس میں خصوصی تاثیر سمجھنا دین پر زیادتی ہے۔ اِسی بنا پر ہر نماز کے بعد مصافحہ سے علامہ شامی منع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج علمائے حق دفن کے بعد اَذان سے منع کرتے ہیں گو اَذان میں اللہ کا ذکر ہے لیکن قبر پر قرآن پڑھنے اور دُعائِ استغفار کا موقع ہے یہ رسم چھوڑکر اَذان و سلام جو رسم بھی نکالی گئی، دین کو دو نقصان پہنچیں گے ترکِ سُنّت اور ایجادِ بدعت۔ بھائی مسلمانوں! قبر پر اَذان پڑھنے کا ذکر حنفی کتابوں میں بس اِتنا ہی تھا جو آپ نے دیکھ لیا بعض