ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
مبارک زمانہ میں اِن بدعتوں کا نام و نشان اَور رواج ہرگز نہ تھا چنانچہ کئی صدیوں تک تو قبر پر اَذان کا ذکر تک نہیں آتا۔ پچھلے زمانہ میں بعض غیر قابل ِ ذکر شافعی لوگوں نے اِس کو جاری کیا اَور فقہائے احناف نے اِس کو بدعت کا خطاب دیا چنانچہ حنفی فقہ کی مشور کتاب فتاوٰی شامی ج١ ص ٣٥٧ میں ہے : ''علامہ خیر الدین رملی نے بحرالرائق کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ میں نے شافعی مذہب کی کتابوں میں لکھا دیکھا ہے کہ کہیں کہیں نماز کے علاوہ بھی اذان کہنا سُنّت ہے جیسا بچہ کے کان میں اذان کہنا، غمزدہ، مرگی والا، غضب ناک، بدخلق انسان یا جانور کے کان میں اذان کہنا، جنگ کے وقت، آگ لگ جانے کے وقت اَذان کہنا بھی سُنّت ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ میت کو قبر میں اُتارتے وقت، اِس قیاس پر کہ جب دُنیا میں پیدا ہوا تھا اُس وقت بھی بچہ کے کان میں اَذان کہی جاتی ہے۔ لیکن علامہ ابن ِ حجر مکی رحمة اللہ علیہ نے اس کو شرح عباب میں رَد کردیا ہے۔''............. الخ ظاہر ہے کہ یہ کتابیں شافعی مذہب کی ہیں ہم اِس کے جواب دِہ نہیں ہیں پھر غور کیجیے کہ بریلوی مذہب کا مسئلہ بیمار لفظ سے شروع ہوتا ہے قِیْلَ کسی گُمنام شخص نے کہا ہے کہ میت کو قبر میں اُتارتے وقت اَذان کہی جائے لیکن علامہ ابن ِ حجر نے شرح عباب میں اِس کو رَد کردیا ہے۔ ع اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے حنفی مذہب میں تو اِس اَذان کا نام و نشان نہیں، شافعی مذہب میں بھی اِس بدعت کا یہ حال ہورہا ہے۔ عِنْدَ اِنْزَالِ الْمَیِّتِ کا لفظ اِس بات کی دلیل ہے کہ شافعی مذہب میں یہ رواج تھا کہ میت کو اُتارتے وقت اَذان کہتے تھے، دفن کے بعد اَذان کہنے کی بدعت آج تک اہل ِ علم میں سے کسی کو نہ سوجھی۔ دین کی تمام کتابیں آج تک اِس کے متعلق خاموش ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن ِ عابدین شامی ج١ ص ٨٣٧ میں میت کو قبر میں رکھتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ پڑھنے کے بیان میں ایک تنبیہ بیان فرماتے ہیں: ''احادیث میں جو الفاظ میت کو رکھتے وقت پڑھنے کے لیے وارِد ہوئے ہیں اُنہیں پر بند رہنے سے اِس بات کا اِشارہ نکلتا ہے کہ میت کو قبر میں داخل کرتے وقت اَذان کہنا جیسا کہ آج کل دستور بن گیا ہے سُنّت نہیں ہے اور علامہ ابن ِ حجر نے اپنے فتاویٰ میں صاف