ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
اَذان کہنا نہ حدیث میں ہے نہ فقہ میں نہ بزرگانِ دین کے عمل میں۔ ہاں بدعت سے ضرور ثابت ہے۔ ٣۔ اَذان کے الفاظ میں توحید و رسالت کا نہایت سادہ تصور ہے لیکن سورہ بقرہ کے اوّل و آخر میں ہمارا دعویٰ ہے کہ اِسلام کے تمام بنیادی اُصول، اَرکان، اعمال، افعال کا پورا پورا تصور موجود ہے۔ اگر کسی صاحب کو اِس میں شک ہوتو اِس دعویٰ کو چیلنج کرکے دیکھیں پھر اگر میت کو تلقین اور تعلیم ہی مقصود ہے تو ایسی جامع شافی کافی مبارک تعلیم سے کیوں محروم کیا جاتا ہے؟ ٤۔ سُنّت کی روشن مثال کے مقابلہ میں بدعت کو سوچنا ہی کتنی جرأت ہے؟ میت کو جوابات کی تلقین کا ایک طریقہ اَور بھی ہے جو کتاب الاذکار ص ٧٤، شامی ج١ ص ٧٩٧، اَشعة اللمعات ج١ ص ١٣٠ پر درج ہے۔ شافعی مذہب میں اِس کا زیادہ رواج ہے حنفیوں میں بہت تھوڑے لوگ اِس کے قائل ہیں۔ شامی کے متن دُرِّمختار کا فیصلہ یہ ہے : ''مناسب یہ ہے کہ مروجہ تلقین نہ کی جائے'' بحرالرائق ج٢ ص ١٧٠ میں ہے کہ اِس مسئلہ میں اختلاف ہے۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : تلقین ِ میت بہت سے شافعیوں اَور بعضے حنفیوں کے نزدیک مستحب ہے ( اَشعة اللمعات ج١ ص ١٣٠) معلوم ہوا کہ حنفیوں میں اِس کے قائل بہت کم لوگ ہیں اور بندہ مؤلف عرض کرتا ہے کہ تلقین ِ میت کی ضرورت اگر تسلیم بھی کرلی جائے تو سورہ بقرہ کے اوّل و آخر کے برابر تلقین کے الفاظ ناممکن ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی تلقین کے لیے اِس سے زیادہ جامع مضمون کہیں نہیں ہے۔ پھر رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا سے جو دُعا شروع ہوتی ہے انصاف سے سوچیے کہ وہ کس قدر حسب ِ حال اور مناسب ہے مگر افسوس کہ جن لوگوں کو مسائل پیدا کرنے کا شوق لگ گیا ہے اُن کو قرآن کے الفاظ اور سُنّت طریقوں میں کچھ نور ہی نظر نہیں آتا۔ یاد رکھو کہ بدعت کا ٹمٹما ہوا چراغ پل ِصراط پر بجھ جائے گا اَور حقیقت ِ حال پر اطلاع حاصل ہونے کے بعد افسوس کے سوا کیا حاصل؟ واضح ہو کہ دفن کے بعد اَذان دینا ایک نیا مسئلہ ہے نہ حدیث میں نہ فقہ حنفیہ میں۔ بزرگانِ دین کے