ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
فرمادیں کیونکہ اَب اِس سے پوچھا جارہا ہے۔ (مشکٰوة شریف باب عذاب القبر) نیز آنحضرت ۖ نے سعید صاحبزادہ حضرت ابراہیم اَور عثمان بن مظعون کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم دیا ہے۔ (ابن ِ ماجہ، ابوداو'د، بزار وغیرہ بحوالہ شامی ج١ ص ٨٣٨) اِن روایات سے معلوم ہوا کہ قبر پر پانی چھڑکنے کے بعد سب لوگ کچھ دیر بیٹھ کر میت کے لیے گناہوں کی بخشش اَور مُنکر نکیر کے جوابات پر ثابت قدمی کی دُعا مانگیں اور یہ بیٹھنا اِتنی دیر تک ہو کہ جتنی دیر اُونٹ ذبح کرنے، اُس کی کھال اُتارنے گوشت بنانے اَور بانٹنے پر لگتی ہے کیونکہ اُونٹ کی جان بھی دیر سے نکلتی ہے، چمڑا اُتارنے پر بھی بہت وقت خرچ ہوتا ہے، گوشت کاٹنا اَور تقسیم کرنا بھی بڑا کام ہے۔ درحقیقت مسلمان بھائی پر یہ بہت بڑا احسان ہے۔ ایک مسافر آج ہی نئی منزل اَور نئی دُنیا میں آیا ہے شام کا وقت ہے۔ دین ِ اسلام کے بنیادی اُصولوں پر ایمان کی پڑتال اَور تحقیقات درپیش ہے۔ مسلمان بھائیوں کا آخری احسان اُس پر یہ ہے کہ نہایت خاموشی توجہ اَور زاری سے اُس کے واسطے دُعا و اِلتجا کریں ،کیونکہ میت پر نہایت خطرناک وقت ہے، کئی من مٹی کے نیچے پڑا ہے۔ ہماری آواز کسی مادی اَور طبعی ذریعہ سے اُسے ہرگز نہیں پہنچ سکتی بلکہ خداوند ِتعالیٰ کے پہنچانے سے ہی پہنچ سکتی ہے اَور خداوند ِتعالیٰ کی رحمت کو فقط سنت طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں بدعات کو تراشنے اور ایجاد کرنے کی بجائے سنت کی پناہ لینی چاہیے۔ اگر اپنے قیاس سے اپنی عقل کی ایجاد سے، اَذان یا کوئی اَور بناوٹی کام کیا تو میت کی حق تلفی بھی ہوئی اَور سُنّت سے محرومی بھی ہوئی، اِستغفار اَور دُعاء کے ساتھ میت کے سر اور پائوں کی طرف سورہ بقرہ کا اّول آخر پڑھنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ اَحناف و شوافع اِس کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو شامی ج١ ص ٨٣٨ کتاب الاذکار اَز امام نووی ص ٧٤، اَشعة اللمعات شرح مشکٰوة شیخ عبد الحق محدث دہلوی ج١ ص ١٣٠) جو لوگ قبر پر اَذان کہنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اَذان کے اَلفاظ سے میت کو جوابات کی تعلیم اَور تلقین ہوتی ہے وہ اَذان کے الفاظ کا سورہ بقرہ کے اوّل آخر سے مقابلہ کرکے دیکھیں۔ ١۔ اذان کے الفاظ قرآنی الفاظ نہیں ہیں اَور سورة بقرہ کے اوّل و آخر قرآن کریم کی ایسی آیات ہیں جن کے فضائل بے شمار ہیں۔ ٢۔ سورہ بقرہ کا اوّل آخر حدیث سے ثابت ہے۔ اِس پر بزرگانِ دین کا عمل بھی ثابت ہے لیکن