ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
چاند سورج گرہن ہوتے ہیں۔ جس دن حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو سورج گرہن ہوگیا آنحضرت ۖ نے صحابۂ کرام کو دورَکعت نماز بڑی لمبی پڑھائی پھر جب گرہن ختم ہوگیا تو حاضرین سے فرمایا کہ چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دَو نشانیاں ہیں۔ اِن کے (گرہن کے ) ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں اور یقین جانو کہ اِن کا گرہن کسی کے مرنے اور پیدا ہونے سے نہیں ہوتا، جب ایسا موقع آئے تو نماز میں مشغول ہوجاؤ اور اِس حالت کے دُور ہونے تک نماز میں مشغول رہو۔( نسائی شریف ۔اُسد الغابہ) حضرت ماریہ اپنے بچہ کی وفات کے بعد برسوں زندہ رہیں۔ حضورِاقدس ۖ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (بیت المال سے ) اُن کا خرچ اُٹھاتے تھے۔ اِن کے بعد حضرت عمر نے بھی اپنے زمانۂ خلافت میں یہ سلسلہ جاری رکھا حتی کہ محرم ١٦ھ میں حضرت ماریہ نے وفات پائی ،حضرت عمر نے اُن کے جنازے کی شرکت کا اِتنا اہتمام کیا کہ لوگوں کو باقاعدہ خود اکٹھا کیا اور نماز ِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں (الاصابہ) رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا وعن ولدہا۔ فائدہ : حضور اقدس ۖ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس لیے بھیجے گئے کہ اُمت کو عمل سے اور قول سے ہرطرح کی تعلیم دیں چنانچہ آپ ۖ کی زندگی میں ہرطرح کے حالات پیش آئے جو اُمت کے لیے نمونہ ہیں اور آنحضرت ۖ کے حالات اور اِرشادات سے اُمت کو ہر شعبۂ زندگی میں عمل کرنے کے لیے سبق ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم کے واقعہ ہی کو لے لیجئے۔ اِس میں سے بہت سے احکام وآداب ملتے ہیں۔ (1) بچوں کو چومنا ،چمٹانا، پیارکرنا دین داری کے خلاف نہیں ہے بلکہ سید عالم ۖ کی سنت ہے۔ اپنی اَولادکی خیرخبراوردیکھ بھال کے لیے اُن کے پاس آناجانا بھی عین دین داری ہے۔ (2) بچوں کواُن کی ماں کے علاوہ غیرعورت سے دُودھ پلوانادُرست ہے۔ (3 ) یہ بھی معلوم ہوا کہ اَکابر کے ساتھ خدام کاجانا بلکہ موقع کے مناسبت سے اُن سے آگے پہنچ کر اُن کے اُٹھنے بیٹھنے اور آرام کا اِنتظام کردینا مستحب ہے۔ (4) اپنی آل اَولاد یاعزیزواَقارب کی وفات پر دِل کا رنجیدہ ہونا اور آنسوؤں کا آجانا خلاف ِ شریعت نہیں ہے بلکہ آنحضرت ۖ کی سنت ہے۔ ملاّ علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ حالت اہل کمال حضرات کے نزدیک اُن مشائخ کے حالات سے بہتراور اکمل ہے جن کے حالات کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی