ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
چلے جانے پر رونا کیوں آیا (یہ سوچ کر) سوال کیا کہ یا رسول اللہ ۖ !آپ بھی روتے ہیں؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا اے عوف کے بیٹے ! یہ آنکھوں سے آنسوآجانا نہ بے صبری ہے نہ منع ہے نہ تعجب کرنے کی چیز ہے بلکہ فطری طورپر جو اِنسان کے دل میں رحمت اور شفقت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے یہ(اُس) رحمت کا(اَثر) ہے۔ اِس کے بعد پھر اَندر سے آپ ۖ کا دِل بھر آیا اور دوبارہ رونے لگے اور یوں فرمایا : اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَانَقُوْلُ اِلَّامَایَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَااِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ ۔ بیشک آنکھوں میں آنسو ہیں اور دِل میں رنج ہے اور زبان سے ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو۔ ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو اور تیری جدائی سے اے ابراہیم ہم کو رنج ہے۔ پھر اُسی وقت حضرت ابراہیم کی وفات ہوگئی۔ اُن کی وفات پر سید عالم ۖ نے فرمایا کہ میرا بچہ دُودھ پینے کے زمانہ میں دُنیا سے رخصت ہوگیا ہے اور یقین جانو اِس کے لیے اللہ کی طرف سے دُودھ پلانی والیاں مقرر کی گئیں جو جنت میں دُودھ پلاکر اُس مدت کو پورا کریں گی جو دُودھ پلانے کی ہوتی ہے۔(مسلم) مدت ِ رضاعت کی تکمیل کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس بچہ اور اِس کے والدِ مکرم ۖ کی عزت افزائی کے لیے خصوصی طورپر دُودھ پلانے والیاں مقرر کی گئیں اور اِس بچہ کو دُنیا سے رخصت ہوتے ہی جنت میں بھیج دیا گیا۔ ( شرح نووی علی المسلم) قَالَ فِیْ شَرْحِ الْمَوَاھِبِ وَقَدَّمَ الْخَبَرَ (فِیْ قَوْلِہ اِنَّ لَہ ظِئْرَیْنِ) اِشَارَةً اِلَی اخْتِصَاصِ ھٰذَا الْحُکْمِ ۔ الخ وفات کے بعد سیّد عالم ۖ نے اپنے بچہ کی نماز ِجنازہ خود پڑھائی اورجنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون کی قبرکے پاس دفن فرمایا۔ حضرت فضل بن عباس نے اُن کو غسل دیا تھا اور قبر میں رکھنے کے لیے حضرت فضل اور اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اُترے۔ سیّد عالم ۖ قبر کے کنارے تشریف فرمارہے۔ دفن کے بعد قبر پر پانی چھڑک دیا گیا اور پہچان کے لیے چند سنگریزے قبر پررکھ دیے گئے سب سے پہلے اِن ہی کی قبر پر پانی چھڑکا گیا۔ ( مشکوة شریف۔اُسد الغابہ) جاہلیت کے زمانہ میں لوگوں کا خیال تھا کہ کسی بڑے آدمی کے پیدا ہونے یا وفات پانے کی وجہ سے