ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
اُس سے طلاق پڑجاتی ہے۔ مسئلہ : کوئی شخص یوں کہے اِس شہرکی یااِس بستی کی تمام عورتوں کو طلاق اوراُس کی بیوی بھی اُس میں ہوتواُس پر طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن اگرشوہرنے بیوی کوکہاکہ تیری قوم یاتیرے خاندان کوطلاق توچونکہ وہ عورت اُس خاندان اورقوم میں داخل ہے اِس لیے اُس عورت پرطلاق پڑجائے گی۔ اِسی طرح اگر یوں کہا محلّہ کی عورتوں کویااِس گھرکی عورتوں کویااِس کمرے کی عورتوں کوطلاق اوربیوی اُن میں شامل ہوتوطلاق ہوجائے گی۔ مسئلہ : فی الواقع طلاق نہ دی ہولیکن لوگوں کے سامنے جھوٹ موٹ اقرارکرلیاکہ میں نے طلاق دی ہے تواِس سے عدالت کے نزدیک طلاق واقع ہوگی اورعورت کوعلم ہوتووہ بھی اِس کوطلاق شمارکرے گی اِلَّایہ کہ شوہر نے اِس بات پرگواہ بنالیے ہوں کہ وہ طلاق کاجھوٹااقرارکرے گا۔ مسئلہ : ایک شخص نے دباؤاورجبرکی وجہ سے گزشتہ زمانہ میں طلاق دینے کاجھوٹا اقرارکیا کہ اُس نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی تھی تواِس سے طلاق واقع نہ ہوگی۔ مسئلہ : طلاق کی نیت سے اگربیوی کوتین ڈھیلے دیے یالکڑی سے تین خط کھیچ دیے لیکن زبان سے طلاق کاصریح یاکنایہ لفظ نہیں کہا تواِس سے طلاق نہیں ہوتی۔ تنبیہہ : بعض لوگ لاعلمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ حمل کے دوران یاگواہوں کے بغیر یاتحریری طلاق وصول نہ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ طلاق جب دی جائے توہرحال میں واقع ہوجاتی ہے خواہ ماہواری کے اےّام میں دی ہو یاحمل کے دوران دی ہواِسی طرح گواہ ہو ں یانہ ہوں اوربیوی نے سناہویانہ سناہو،شوہرتنہائی میں بھی طلاق دے دے توواقع ہوجاتی ہے اسی طرح شوہر جب طلاق کی تحریر لکھ دے یا لکھوا لے تو فقط اسی سے طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ اِس کے بعدوہ عورت کوتحریربھیجے یا نہ بھیجے اور بھیجے توعورت وصول کرے یانہ کرے۔