ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
''ظاہر یہ ہے کہ کمپنی ایک ہی وقت میں وقف فنڈ کی متولی بھی ہو اور اُس کے اموال میں مضارب بھی ہو اِس سے کوئی مانع نہیں ہے جبکہ ایک تو مضاربت کا عقد جدا ہوا ہو اور دُوسرے کمپنی کا نفع میں حصہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ نہ ہو کیونکہ فقہاء نے وقف کے ناظر کے لیے جائز بتایا ہے کہ وہ وقف کی زمین کو خود اُجرت مثل یا اُس سے زائد کے عوض کرایہ پر لے لے۔ اِس پر مضاربت کو قیاس کیا جاسکتا ہے اگرچہ اِس کی تصریح مجھے فقہاء کے کلام میں نہیں ملی۔'' ہم کہتے ہیں : یہ بات غور طلب ہے کہ فقہاء نے ناظرکے لیے وقف زمین کو اُجرت پر لینے کے جواز کی تصریح کی اور ناظر کے مضارب بننے کے جواز کی تصریح نہیں کی۔ آخر اِن دونوں میں کچھ فرق ہوگا تب ہی تو فقہاء نے بظاہر فرق رکھا ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ وقف اراضی کوئی غصب کرلے تو اگرچہ وہ اُجرت پر دینے کے لیے نہ ہو تب بھی غاصب کو اِس کی اُجرت مثل دینی پڑے گی۔ اِسی طرح اگر ناظر یا متولی وقف کی اراضی کو خود اُجرت پر لے لے تو اگرچہ وہ معروف طریقے پر اجارہ نہیں ہے لیکن اُجرت مثل واجب ہونے سے اِس معاملہ کو مجازاً اجارہ کہہ دیا۔ مضاربت میں حقیقی یا مجازی کوئی بھی صورت نہیں بنتی اِس لیے مضاربت کو اجارہ پر قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ بھی اِس قیاس پر پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اِس لیے وہ ایک متبادل صورت بھی بتاتے ہیں اگرچہ تکافل کمپنی نے عملاً پہلی ہی صورت کو اختیار کیا ہے۔ مولانا مدظلہ متبادل صورت یہ لکھتے ہیں : ولئن کان ھناک شک فی جمع الشرکة بین تولیة الوقف و بین المضاربة فیمکن ان یکون احد مد یری الشرکة او احد موظفیہ متولیا للوقف بصفتہ الشخصیة ویستاجر الشرکة لادارة الصندوق باجر و یدفع الیھا الاموال للاستشمار علی اساس المضاربة۔ '' اگر کمپنی کے بیک وقت متولی وقف ہونے اور مضارب ہونے میں کچھ شک ہو تو جو