ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
پیدا ہوئی ہیں۔ اِسلامی اِنشورنس میں اسے عقد تبرع میں تبدیل کر دیا گیا جس سے ربا (سود) کی خرابی تو بالکل ختم ہو گئی کیونکہ سود اُسی صورت میں پایا جاتا ہے جب دو چیزوں کی تبدیلی عقد معاوضہ کی بنیاد پر ہو۔ جب معاملہ معاوضہ کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ کوئی شخص اپنی طرف سے تبرعا زیادہ دے دے تو اِس میں کوئی حرج نہیں بلکہ شرعاًپسندیدہ ہے مثلاً کسی شخص نے آپ کو سو روپے ہدیے کے طور پر دیے۔ پھر کسی موقع پر آپ کی اِس سے ملاقات ہوئی تو آپ نے دو سو روپے ہدیے کے طور پر دے دیے تو یہ نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ ہوگا اور اِسے ربا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اُس نے آپ کو سو روپے اِس شرط پر نہیں دیے تھے کہ آپ اُسے کچھ بڑھا کر واپس کریں گے…… باقی دو خرابیاں غرر اور قمار کی ہیں۔ ان دونوں کی بنیاد غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) پر ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر یقینی کیفیت تکافل کے اَندر بھی موجود ہے کیونکہ اِس میں پالیسی ہولڈر ایک ایسے نقصان کی تلافی کے لیے پریمیم جمع کراتا ہے جس کا پایا جانا غیر یقینی ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ پالیسی ہولڈر کو وہ نقصان پیش آئے گا یا نہیں؟ لیکن اِسلامی تکافل کے اَندر اِس غیر یقینی کیفیت سے عقد ناجائز نہیں ہوتا کیونکہ اِس کی بنیاد عقد تبرع پر ہے اور تبرعات کے اَندر غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) کا پایا جانا ممنوع نہیں جبکہ عقود معاوضہ کے اَندر ممنوع ہے۔ اِس کو بذریعہ مثال یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً میرے پاس ایک تھیلی میں کچھ رقم ہے میں کسی دُکاندار سے ایک پنکھا خریدتا ہوں اور اُس سے کہتا ہوں کہ اِس کی قیمت وہ رقم ہے جو اِس تھیلی میں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ صورت ناجائز ہے کیونکہ دُکاندار کو معلوم نہیں کہ اِس میں کتنی رقم ہے لہٰذا اس کے اعتبار سے قیمت مجہول (غیر معلوم) ہے اور بیع کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی قیمت فریقین کو معلوم ہو، لیکن اگر میں کسی طالب علم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ امتحان میں اوّل آ گئے تو جو رقم اِس تھیلی میں ہے وہ تمہیں اِنعام کے طور پر دُوں گا تو یہ صورت جائز ہے حالانکہ یہاں بھی جہالت