ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
پریمیم ادا کرتے وقت پالیسی ہولڈر کی یہ نیت ہوتی ہے کہ اُسے اِس کے بدلے کچھ نہ کچھ ملے بلکہ اگر اُس کا نقصان زیادہ ہو تو زیادہ ملے۔ اور اِس پر کھلا قرینہ یہ ہے کہ خواہ اِسلامی اِنشورنس ہی ہو آدمی اِسی غرض سے کراتا ہے اور ساری لکھت پڑھت کرتا ہے کہ اُس کے نقصان کی تلافی ملے۔ صمدانی صاحب کا اِس کے عقد معاوضہ ہونے سے اِنکار کرنا اور اِنکار کرنے کی وجہ : صمدانی صاحب معاملہ کے عقد معاوضہ ہونے کا اِنکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''وقف کو چندہ دینا ایک مستقل معاملہ ہے اور وقف کے قواعد کے مطابق چندہ دینے والے کا نقصان کی تلافی کرانے کا حقدار ٹھہرنا بالکل دُوسرا معاملہ ہے۔'' (تکافل ص 106) عقد معاوضہ کی نفی کرنے کی خاطر صمدانی صاحب پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان معاملات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''اِس فنڈ کے اَندر وہ (یعنی پالیسی ہولڈرز) اِس لیے رقم جمع کرا رہا ہوتا ہے کہ اُس پول میں موجود اَفراد (یعنی دیگر پالیسی ہولڈرز) میں سے اگر کسی کو مالی نقصان ہو تو اُس کی رقم کو بھی اِس نقصان کے پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے اور مجموعی طور پر اگر اِسے بھی کوئی نقصان ہو تو دُوسرے شرکاء بھی اِس پر تیار ہیں کہ اِن کے پریمیم سے اُس کا نقصان پورا کیا جائے لیکن یہ شرط نہیں کہ میں اِس لیے پریمیم دے رہا ہوں کہ میرا نقصان پورا کیا جائے کیونکہ مجھے نقصان ہونے کا یقین نہیں اور نہ ہی دُوسرے افراد کو یقین ہے بلکہ نقصان کے احتمال کی بنیاد پر یہ رقم جمع کی جا رہی ہے۔'' (تکافل ص 114) ''پالیسی ہولڈر کے نقصان کو پوراکرنے کی ذمہ داری پالیسی ہولڈر کے تبرعات سے وجود میں آنے والے حوض (پول) پر ہوتی ہے۔ (تکافل) کمپنی یہ کہتی ہے کہ یہ پول تمہارا نقصان پورا کرے گا اگر اِس کے اندر نقصان پورا کرنے کی گنجائش ہوئی تو آپ کے نقصان کی تلافی کر دی جائے گی اور اگر پول کے اَندر گنجائش نہ ہوئی تو یہ نقصان پورا نہیں کیا جائے گا ۔(تکافل ص 115)