ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
رونے لگا کہ میں تو اِس قابل نہیں ہوں یہ کیا ہوگیا۔ میں نے حضرت سے احتجاج کرنا چاہا تو مولانا خدا بخش صاحب نے فرمایا حضرت بیمار ہیں اُنہیں تکلیف ہوگی نیز وہ اہل اور نااہل کی خوب پہچان رکھتے ہیں اِس لیے آپ اُنہیں تکلیف مت دیں۔ اَب میں مجبورًا خاموش ہوگیا پھر جب اِس فہرست میں پروفیسر رفیق اذفر صاحب کا نام دیکھا تو میں نے رضوان صاحب سے پوچھا کہ پروفیسر صاحب کو بلالاؤں؟ انہوں نے اجازت دے دی تو میں اپنی آنکھیں صاف کرنے کے بعد رفیق اذفر صاحب کو بلالایا اور فہرست اُنہیں تھمادی۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر فہرست دیکھنے لگے۔ حضرت ہوش میں تھے اور ہماری تمام کیفیت کو دیکھ رہے تھے۔ پھر مولانا خدا بخش صاحب اُٹھے اور حضرت کے سینے پر سر رکھ کر کہا، حضرت! ہم تو اِس قابل نہیں ہیں لیکن اگر آپ ہمیں اِس قابل سمجھتے ہیں تو ہمارا ذمّہ بھی لیں، یہی بات میں نے بھی دوھرا دی۔ حضرت نے فرمایا خدا تعالیٰ ذمّہ دار ہے۔ جب ہم نے اِس بات کو دوبارہ اور سہ بار دوھرایا تو حضرت نے فرمایا ہاں پہلے خدا ذمّہ دار ہے اُس کے بعد میں بھی ذمّہ دار ہوں اور سب کے لیے دُعا کرتا ہوں۔ اِس کے بعد حضرت نے جانے کی اجازت دے دی اور ہم دست بوسی کے بعد کمرہ سے باہر نکل آئے۔ اِس واقعہ کے بعد تین چار مرتبہ حاضرِ خدمت ہوا پہلے مصافحہ ہوجاتا تھا لیکن آخری مرتبہ صرف زیارت ہی ہوسکی۔ سانحہ ٔ اسلام آباد، جامعہ حفصہ کی ہزاروں طالبات کی مظلومانہ شہادت، عبد الرشید غازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت جیسے سانحات کے بعد حضرت شاہ صاحب اِنتہائی دلبرداشتہ ہوگئے تھے اور واصل بحق ہونے کے لیے بے قرار تھے۔ اَز بکستان سے واپسی کے بعد مرض کی شدت کے دَوران بوقت ِ ملاقات بندہ نے جب بھی یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفائے کاملہ سے نوازے تو بسا اَوقات آپ نے فرمایا دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اَب قبول فرمالے اِس لیے آپ اپنے تمام کاموں کو جلد از جلد سمیٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ حضرت تو اب اپنی منزل ِ مقصود تک پہنچ گئے لیکن ہم یتیم ہوگئے۔ حضرت جیسی شفیق ہستی اَب کہاں ملے گی۔ ہم تو اَب اِس شعر کا مصداق بن کر رہے گئے ہیں۔ رو رہی ہے آج اِک ٹوٹی ہوئی مینا اُسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے ہمارے شاہ جی صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ سب کے تھے۔ علماء و صلحاء ہوں یا طلباء و اَساتذہ، زاہد