ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
اکابر اور اساتذہ کرام کے علمی تسلسل کے حامل لوگ ہر طرف پھیلے ہوئے خدمت کررہے ہیں کام کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برادرِ مکرم مولانا محمود میاں صاحب اور مولانا رشید میاں صاحب کو توفیق ِمزید عطاء فرمائے کہ اُن کی نگرانی میں یہ اِدارے اور ترقی کریں اور ترقی کریںاور علم و عمل سے آباد یہ اِدارے اللہ کے یہاں قبولیت حاصل کریں ۔ ظاہر ہے یہی چیزیں ہماری بنیاد ہیں یہی ہماری روشنی ہے یہی روشنی لے کر ہم دُنیا میں میدانِ عمل میں اُترتے ہیں ۔اور آج جس دَور سے ہم اور آپ گزر رہے ہیں اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ ہم جب اپنی تاریخ پڑھتے ہیں چاہے انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں چاہے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم کتابوں میں بڑے بڑے واقعات پڑھتے ہیں اور اپنی مجالس میں اُس کا علمی اَنداز میں تذکرہ کرتے ہیں تو وہ واقعات بڑے محیط قسم کے واقعات اور بڑے ہیکل قسم کے واقعات ہمارے دل و دماغ پر چھاجاتے ہیں لیکن جب ہم اپنے دَور کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو وہ واقعات اُس کے مقابلے میں کچھ چھوٹے ہی نظر آتے ہیں۔ ہماری نظروں میں عالمی سطح پر اِنقلابات اور تغیرات نمودارہوئے ہیں تبدیلیاں برپا ہوئی ہیں، سوویت یونین ٹوٹ گیا عالمی سیاست میں طاقت کاتوازن ختم ہوگیااورعالمی سیاست کاتوازن سارا کا سارا ایک ہی پلڑے کی طرف جھک گیااورآج امریکہ کی قیادت میں مغربی اِستعمار اپناتمام ترغصہ اِسلام اوراہل اِسلام سے نکال رہاہے۔ ساری مشکلات اِس وقت اُمت ِمسلمہ کی طرف متوجہ ہیں ،ظاہرہے کہ اِس تمام ترماحول میں اِس صورتِ حال کوہم نظراَندازنہیں کرسکتے اوریہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیے کہ جب ہم اسلام یا اُمت ِاسلام کی بات کرتے ہیں تو اُمت ِاسلام میں بھی نشانے پرہمارے دینی مدارس ہیں اوردینی مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں ، علم وعمل کایہ نمونہ آج دُنیاکے لیے قابل ِقبول نہیں۔ تو یہ ایک مشکل دَورہے جو ہمارے اُوپرگزررہاہے اورہم نے ہی سوچناہے کہ ہم نے اِس مشکل سے کیسے نکلناہے۔ اِس کاتحمل اوراِس کی برداشت ہم نے کرنی ہے۔ یہ اَب ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اِس صورت ِحال سے کس اِستقامت کے ساتھ نکلتے ہیںکس ہوش مندی کے ساتھ ہم اِس سے نکلتے ہیں۔ آپ حکمرانوں کے مزاج کودیکھیں آپ سیاسی جماعتوں کی مشکلات کودیکھیںسول سوسائٹی کے نام پر جولوگ آج کل نمودارہوتے ہیں اِس حوالے سے آپ لوگوں کودیکھیں یہ سب کے سب دُنیاکویہی کہہ رہے ہیںکہ تمہارادُشمن یہ مُلّاہے یہ مدرسے والے مُلا ہیںہم نہیں ہیں، وہ بھی ہمیں نشانے پر لانے کے لیے اُن کو مشورہ دیتے ہیں۔