ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
لاچاری اور مجبوری کی وجہ سے اُس کام کو کرنے کی اجازت ہو اور اُس پر مؤاخذہ نہ ہو۔ بالفاظِ دیگر لاچار و مجبور شخص کے حق میں وہ حرام مباح کی طرح بن جاتا ہے کہ حرام رہنے کے باوجود مجبور شخص کو گناہ نہیں ہوتا۔ اِس کی مشہور مثال یہ ہے کہ جان کے یا عضو بدن کے اتلاف کی دھمکی دے کر کسی کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے اور وہ مجبور شخص دل میں تصدیق و ایمان کو جمائے ہوئے زبان سے کلمہ کفر کہہ دے۔ ایمان کے واجب ہونے اور کفر و شرک کے حرام ہونے کے جو اَسباب ہیں یعنی قرآن و حدیث کی نصوص اور عقلی دلائل یہ سب موجود ہیں اور کلمہ کفر کہنے کی حرمت بھی باقی ہے اور مجبور شخص کے حق میں منسوخ نہیں ہیں اِس کے باوجود زبان سے کلمہ کفر کہنے کی اجازت و رُخصت ہے۔ لیکن چونکہ کلمہ کفر کہنے کی حرمت اور اُس کے اَسباب موجود ہیں اِس لیے اگر کوئی عزیمت کو اختیار کرے تو یہ اَولیٰ ہے یعنی اصل حکم پر عمل کرے اور کلمہ کفر زبان سے نہ نکالے اور قتل ہوجائے تو شہید ہوگا اور اَجر کا مستحق ہوگا۔ قرآن پاک میں ہے :اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنّ بِالْاِیْمَانِ مگر جو شخص مجبور کیا جائے جبکہ اُس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو۔ حدیث میں ہے : اِنَّ مُسَیْلَمَةَ الْکَذَّابِ اَخَذَ اِثْنَیْنِ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِلْاَوَّلِ مَا تَقُوْلُ فِیْ مُحَمَّدٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ فَمَا تَقُوْلُ فِیَّ قَالَ وَاَنْتَ اَیْضًا فَخَلّٰی سَبِیْلَہ' وَقَالَ لِلْاٰخَرِ مَا تَقُوْلُ فِیْ مُحَمَّدٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ فَمَا تَقُوْلُ فِیَّ قَالَ اَنَا اَصَمُّ لَااَسْمَعُ فَاَعَادَ عَلَیْہِ ثَلاثًا فَاَعَادَ جَوَابَہ' فَقَتَلَہ' فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اَمَّا الْاَوَّلُ فَاَخَذَ بِرُخْصَةِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَمَّاالثَّانِیْ فَصُدِعَ بِالْحَقِّ فَھَنِیْئًا لَّہ'۔ (التلخیص الحبیر ص 103ج 4) مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ ۖ کے دو صحابیوں کو پکڑا اورایک سے پوچھا کہ تم محمد