ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
نے فرمایا : تین باتوں میں میں نے اپنے پرودگار سے موافقت کی (یعنی تین باتوں میں اللہ تعالیٰ کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا) پہلی بات تو یہ کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ اگر مقامِ ابراہیم کو ہم نماز پڑھنے کی جگہ بنالیں تو بہتر ہو( یعنی طواف کے بعد جو دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اگروہ مقامِ ابراہیم کے پاس پڑھی جایا کریں تو زیادہ بہتر رہے گا) اِس پر یہ آیت نازل ہو گئی وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی (اوربنالو مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ) ۔ دُوسری بات یہ کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ آپ کی ازواجِ مطہرات کے سامنے نیک وبد ہر قسم کے لوگ آتے ہیں (یہ بات آپ کی شان و عظمت کے مناسب نہیں لگتی اِس لیے) اگر آپ اپنی ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رہنے کا حکم فرمادیں (تاکہ غیر محرم لوگوں کے سامنے اُن کا آنا جانا بند ہوجائے) تو بہتر ہو، اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ کی آیت نازل ہوگئی۔ اور تیسری بات یہ کہ جب نبی کریم ۖ کی ازواجِ مطہرات نے رشک و غیرت والے معاملہ پر اَکٹھ کرلیا تھا تو میں نے (اِن سب کو مخاطب کر کے) کہا تھا کہ اگر آنحضرت ۖ تمہیں طلاق دے دیں تو آپ کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے آپ کو تم سے اچھی بیویاں دے دے گا، اِس پرمیرے انہی الفاظ و مفہوم میں آیت ناز ل ہوگئی۔حضرت ابن ِعمر کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت عمر نے فرمایا : تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا۔ ایک تومقامِ ابراہیم کو نماز اَداکرنے کی جگہ قرار دینے کے بارہ میں۔ دُوسرے ازواجِ مطہرات کے پردہ کے بارہ میں۔ اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارہ میں ۔ ف : مذکور ہ حدیث میں تو موافقاتِ عمر کے بارے میں تین باتوں کا تذکرہ ہے لیکن دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن مواقع کی تعداد تین سے کہیں زیادہ ہے جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور مشورہ کے مطابق حکم ِالٰہی نازل ہوا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی ایک کتاب میں بیس موافقاتِ عمر کا تذکرہ کیا ہے۔