ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
ور دُوسرے کی نصیحت سے بیداری ہوجاتی ہے بلکہ کبھی یہاں تک نوبت پیش آتی ہے کہ افضل شخص ایسے حال میں فاضل کی نصیحت سے منتفع ہوتا ہے یعنی ایسے وقت اعلیٰ درجہ کے مسلمان کو ادنیٰ درجہ کے مسلمان کی نصیحت باعث صبر و سبب ہوش مندی و بیداری ہوجاتی ہے اور یہ امر تجربے سے ثابت ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ کی تسلی دینے سے حضرت رسولِ مقبول ۖ کو تسکین حاصل ہوئی تھی ابتدائے وحی کے زمانہ میں حالانکہ آپ نبی اور افضل الانبیاء تھے اور حضرت خدیجہ فقط ولی تھیں۔ یہ مفصل قصہ کتب ِ حدیث میں موجود ہے۔ یہاں پر فقط تسلّی کا حال بتلانا مقصود ہے اور حضرت خدیجہکی یہ توجیہ بغیر کسی کی تعلیم کے میرے قلب پر غیب سے القا ہوئی اور اِس کو حضرت مرشدی کی خدمت میں پیش کیا حضرت والا نے پسند فرمایا یہ نکتہ اہل علم کے لیے بڑا مفید اور عوام کے لیے مفید ہے پس یاد رکھنا چاہیے) اور اُس وقت حضرت رسولِ مقبول ۖ نے دست ِ مبارک حضرت سیدة النسائ کے سینۂ مبارک پر رکھا اور کہا اے خدا اِس کو بھوک سے بے خوف کردے۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں جب سے میں نے بھوک کی کلفت کبھی اپنے دل میں نہ پائی (اِس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ۖ کی دُعاء نیز حضرت سیّدہ کی اِلتجا مقبول ہوئی اور تنگی پھر پیش آئی مگر اُس کا اثر نہ معلوم ہوا کیونکہ دل کے لفظ سے ظاہر ہے کہ تنگی پیش آئی مگر باطن میں اثر نہ معلوم ہوا اور اگر تنگی ہی پیش نہ آتی تو یہ فرماتیں کہ پھر کھانے کی وسعت ہوگئی۔ عبرت کی جگہ ہے کہ باوجود ایسی سخت کلفتوں کے اللہ تعالیٰ کا اَدب ملحوظ رکھا اور شکر گزاری کی اور عاجزانہ درخواست کی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اِس کے بعد بچوں کو تنگی نہ ہوئی ہوگی کیونکہ اُن کی مشقت و تنگی کا اثر اپنی ذات سے زیادہ والدین پر پڑتا ہے۔ پس جس اللہ نے اَدنیٰ تکلیف کو محو کردیا اُس نے اعلیٰ کو ضرور ہٹادیا ہوگا۔ شعر جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے دیگر نہ لائق بود عیش با دلبرے کہ ہر بامدادش بود شوہرے دیگر زندہ کنی عطائے تو وربکشی فدائے تو دل شدہ مبتلائے تو ہرچہ کنی رضائے تو دیگر آنکس کہ تراشناخت جاں را چہ کند فرزند و عیال خان و مان را چہ کند دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانۂ تو ہر دو جہاں را چہ کند دیگر چند خوانے حکمتِ یونانیاں حکمتِ ایمان یان را ہم بخوان آزمودم عقل دُور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را