ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
اُونٹنیاں لایا ہوا تھا اَب اُس نے سوچا کہ اگر اِن کے پیچھے میں نماز پڑھوں گا تو نماز تو بہت لمبی ہوگی تو بعض روایتوں میں ہے کہ سورۂ بقرہ شروع کردی۔ سورۂ بقرہ تو لمبی سورت ہے۔ اُس میں توپھر اُس کو بہت وقت دینا پڑتا ہے۔ تو اُس نے نیت توڑی اور الگ نماز پوری کرکے چلاگیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ فلاں آدمی نے ایسے کیا ہے تو یہ اپنے ذہن میں خفا ہوئے کہ یہ اُس نے اچھا نہیں کیا۔ اُن صحابی نے جو نیت توڑکر گئے تھے، رسول اللہ ۖ کو پورا واقعہ بتلایا۔ باجماعت نماز مختصر ہونی چاہیے : پھر رسول اللہ ۖ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو بُلاکر خفگی کا اظہار فرمایا کہ تم لوگوں کو ایک طرح سے آزمائش میں ڈال رہے ہو، فَاتِن یا فَتَّان کہ فتنے میں ڈالتے ہو ١ کہ وہ نماز پڑھیں یا نماز توڑیں۔ تو ایسے نہ کرو بلکہ جو نماز پڑھاتا ہے اُس کے لیے فلاں نماز میں فلاں سورتیں، فلاں نماز میں فلاں سورتیں مناسب ہیں، وہ ہلکی سورتیں ہیں۔ رسول اللہ ۖ خود نماز میں خیال رکھا کرتے تھے کہ جماعت کے ساتھ جو نماز ہو وہ ہلکی ہو۔ اور اِرشاد فرماتے ہیں کہ ایسے ہوتا ہے کبھی کبھی کہ میں اِرادہ کرتا ہوں کہ میں نماز لمبی کروں لیکن مجھے آواز آجاتی ہے کسی بچے کے رونے کی تو میں سوچتا ہوں کہ جتنی دیر نماز جاری رہے گی بچہ روتا رہے گا، ماں پریشان ہوتی رہے گی تو میں نماز مختصر کردیتا ہوں۔ ٢ ایک صحابی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ۖ جیسی نماز کہ وہ مختصر بھی ہوتی تھی مکمل بھی ہوتی تھی ایسی نماز میں نے نہیں دیکھی ٣ یعنی بہت ہی تعریف کی۔ تو اصل بات جو ہے وہ یہی ہے کہ مجمع کو دیکھا جائے، لوگوں کی مصروفیات کو دیکھا جائے۔ یہ حج کے زمانے میں جو مجمع بہت زیادہ ہوتا ہے تو اُن میں تو وہ تین آیتیں دو آیتیں پڑھ کر رکوع کردیتے ہیں۔ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ سے پڑھتے ہیں آدھا رکوع، پھر رکوع کردیتے ہیں۔ پھر لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا سے آگے پڑھتے ہیں تو اَب دُوسرا رکوع کرتے ہیں۔ اِتنی مختصر فجر کی نماز کیونکہ مجمع بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ پانچ چھ لاکھ مجمع ہوتا ہے یا اِس سے بھی زیادہ۔ تو اِتنے بڑے مجمعے کو آنے میں، رہنے میں، رَش میں دِقت ہوتی ہے، وہ اُس کا لحاظ پورا رکھتے ہیں۔ تو جب تک آدمی کو مسئلہ معلوم نہ ہو تو وہ یہی سوچے گا کہ لمبی نماز پڑھنی چاہیے، لمبی نماز زیادہ اچھی ہے مگر ہر جگہ نہیں بتائی گئی ١ بخاری شریف ص ٩٧ ٢ بخاری شریف ص ٩٨ ٣ بخاری شریف ص ٩٨