ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
کردیا۔ آنحضرت ۖ (اِس کی سخت و سُست باتوں کو سن کر) حیرت کرتے اور مسکراتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص بُرا بھلا کہنے میں حد سے گزرگیا تو ابوبکر نے بھی اِس کی بعض باتوں کا جواب دیا۔ اِس پر نبی کریم ۖ ناراض ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ ۖ کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبکر بھی آگئے اور (خدمت اقدس میں حاضر ہوکر) عرض کیا کہ یارسول اللہ (ۖ) جب وہ شخص مجھ کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا تو آپ وہاں بیٹھے رہے لیکن جب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے (اِس میں آپ کے نزدیک کیا حکمت تھی)۔ آپ ۖ نے فرمایا (اصل بات یہ ہے کہ جب تک تم خاموش رہے تو) تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو (تمہاری طرف سے) اِس کو جواب دے رہا تھا، مگر جب تم نے خود جواب دیا (اور اِس طرح نفس کی خواہش کا عمل دخل ہوگیا) تو شیطان درمیان میں کود پڑا۔ پھر آپ ۖ نے فرمایا : تین باتیں ہیں اور وہ سب حق ہیں ، ایک تو یہ کہ جو بندہ کسی ظلم کا شکار ہوتا ہے اور محض اللہ (کی رضا اور اُس کے ثواب کی طلب) کے لیے اُس ظالم سے چشم پوشی کرتا ہے (یعنی اُس سے درگزر کرتا ہے اور بدلہ لینے کو ترک کرتا ہے یا اُس کے معاملہ کو خدا کے سپرد کرکے دُنیا میں اُس سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا یا اُس کو معاف ہی کردیتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اِس ظلم کے سبب (یا اُس کے وصف ِچشم پوشی کے سبب) دُنیا و آخرت میں اپنی مدد کے ذریعہ اُس بندے کو مضبوط و قوی بنادیتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو بندہ اپنی عطا و بخشش کا دروازہ کھولتا ہے تاکہ اِس کے ذریعہ (اپنے قرابت داروں اور مسکینوں کے ساتھ) احسان اور نیک سلوک کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کی عطا و بخشش کے سبب اُس کے مال و دولت میں (ظاہری و باطنی خیر و برکت کی صورت میں) اضافہ کرتا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ جو شخص سوال و گدائی کا دروازہ کھولتا ہے تاکہ اِس کے ذریعہ اپنی دولت کو بڑھائے (یعنی اُس کا لوگوں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنا