ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2007 |
اكستان |
|
اور اِس باب کا مفصل مضمون چہل حدیث کی شرح میں بیان کرچکا ہوں۔ یہاں سے حضرت سیّدة النساء کا دُنیا سے بہت ہی بے تعلق رہنا اور اِس سے محض معمولی نفع اُٹھانا اور پھر اُس کی بدولت جنت کا اعلیٰ مقام حاصل ہونا ثابت ہوا، باوجودیکہ حضرت عائشہ بھی بڑی زاہدہ تھیں لیکن تاہم اُس درجے کو نہ پہنچیں اور اُنکی عمر بھی حضرت فاطمہ سے بہت زیادہ ہوئی یعنی پچاس سال سے زائد ہوئی اور حضرت فاطمہ کی بہت کم عمر ہوئی۔ ایک باعث دُنیا سے کم حصہ لینے کا یہ بھی تھا ،دوسرا سبب فقر تھا۔ فقیر شاکر غنی شاکر سے بدرجہا افضل ہے۔ مولانا بحر العلوم نے شرح مسلم الثبوت میں نقل کیا ہے کہ حضرت شیخ عارف عالم اَجل صوفی زاہد دائود طائی قدس سرہ' سے کسی نے پوچھا کہ جس کے پاس دو سو درہم ایک سال تک رہیں تو وہ کس قدر زکوٰة ادا کرے؟ فرمایا کہ اگر صوفی نے ایک سال تک اِس قدر مال جمع رکھا تو دو سو پانچ درہم زکوٰة دے اور اگر کسی عام آدمی نے ایسا کیا تو پانچ درہم (جوکہ شرعی حکم ہے) ادا کرے۔ واضح ہو کہ اصلی زکوٰة تو شرعاً ہر شخص کے ذمّے اِس رقم کی فقط پانچ درہم ہیں مگر صوفی پر حضرت موصوف نے تعلیمًا اِس لیے سختی کی کہ طالب ِ مولیٰ و محب ِحق کو جمع ِدُنیا سے کیا علاقہ ،یہ اُس کی شان سے بالکل بعید ہے اِس لیے لازم ہے کہ دو سو درہم اصلی اور پانچ زائد بطورِ جرمانہ خیرات کرے۔ واقعی صاحب ِ نصاب ہونا درویشی اور محبت ِحق کے بالکل خلاف ہے۔ اس مضمون کو چہل حدیث کی شرح(تحفۂ احمدیہ) میں ضرور ملاحظہ فرمائیے ، قابل دید ہے اور بعضے شبہات کا نفیس جواب بھی وہاں دیا گیا ہے اور یہ بھی ضرور ہے کہ بغیر اختیارِ زُہد ایمان کامل اور رضائے الٰہی پورے طور پر اور نیز معرفت ِحق بھی حاصل نہیں ہوتی جس درجے کا قربِ خداوندی ہوگا اُسی درجے کا زُہد اور دُنیا سے بے رغبتی ہوگی، خود حالت رسول مقبول ۖ کی اِن اُمور پر شاہد ِعدل ہے۔ (٤٨) عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِفَاطِمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَافَاطِمَةُ تَدْرِیْنَ لِمَ سُمِّیْتِ فَاطِمَةَ قَالَ عَلِیّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِمَ سُمِّیَتْ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ فَطَمَھَا وَذُرِّیَّتَھَا عَنِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ (اخرجہ الحافظ الدمشقی کذا فی عمدة التحقیق للعالم الفاضل ابراھیم العبیدی المالکی قدس سرہ)