ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور ۖ نے اِس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔ بلکہ اِن دنوں میں حضور اکرم ۖ کا مرض شدت کے ساتھ تھا، لوگوں کو جو باتیں بتائی ہوئی ہیں، سب خلافِ واقع ہیں ''۔ (بہارِ شریعت ج٦ ص٢٤٢) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ ۖ کُل تیرہ دن بیمار رہے ہیں اوراِس پر بھی سب متفق ہیں کہ آپ ۖ نے پیر کے روز وصال فرمایاہے ۔اِس حساب سے اگر دیکھا جائے تو آپ ۖ کے مرضِ وفات کا دن بدھ ہی بنتا ہے۔ ا س طرح سے کہ بدھ سے دُوسرے بدھ تک آٹھ دن اور جمعرات سے پیر تک پانچ دن (١٣٥٨) لہٰذا مرضِ وفات کا آغاز بالاتفاق بدھ ہی کا دن ہوا۔ مذکورہ حوالے جات سے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صفر کے مہینے کا آخری بدھ رسول اللہ ۖ کے مرضِ وفات کے آغاز کا دن تھا نہ کہ صحت یابی کا ۔اور آپ ۖ کے مرضِ وفات پر خوشی کیسی؟ درحقیقت بات یہ ہے کہ آخری چہار شنبہ یہودیوں اورایرانی مجوسیوں کی رسم ہے جو ایران سے منتقل ہو کر ہندوستان میں آئی ہے اور یہاں کے بے دین بادشاہوں نے اِسے پروان چڑھایا (ملاحظہ ہو ''دائرہ معارف اسلامیہ'' پنجاب یونیورسٹی ج ١ ص١٨) یہود کو آنحضرت ۖ کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور اُن کی عداوت اور شقاوت کا تقاضہ ہے۔(فتاویٰ محمودیہ ج ١٥ ص ٤١٢ ) لہٰذا یہ یہودوہنود کی خوشی کادن توہوسکتاہے مسلمانوں کانہیں ۔ مسلمانوں کا اِسے بطورِ خوشی منانا سخت بے غیرتی اور بے ادبی ہے۔ مسلمانوں کا اِس دن مٹھائی تقسیم کرنا اگرچہ آنحضرت ۖ کے شدت مرض کی خوشی میں یا یہود کی موافقت کرنے کی نیت سے نہ ہو لیکن بہر حال یہ طریقہ غلط ہے ،اِس سے بچنا لازم ہے۔ بغیر نیت کے بھی یہود کی موافقت کا طریقہ اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ مسلمانوں کوسوچنا چاہیے کہ وہ اِس یہودیانہ ومجوسیانہ اورہندوانہ رسم کو اپنا کر کہیں حضوراکرم ۖ کے مرضِ وفات کا جشن منانے میں یہود وہنود کی صورتاً موافقت تو نہیں کررہے؟ ( ماخوذ از : ''ماہِ صفر کے احکام اورجاہلانہ خیالات '' مرتبہ : مولانا مفتی محمد رضوان صاحب )