ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
حُذَیْفَةُ فَصَدِّقُوْہُ حذیفہ ابن یمان جو تمہیں بتلائیں اُن کی تصدیق کرنا، اِن کو بہت ساری باتیں میں نے بتارکھی ہیں اور وہ سچے ہیں تو جو وہ بتائیں وہ تم سچ مان لو۔ حدیث بیان کرنے میں سب صحابہ سچے ہیں : تو یہ جو چیزیں ہیں اِس کی وجہ سے صحابہ کرام کو حدیث کے بارے میں سچا مانا گیا ہے کسی نے اُن پر تنقید نہیں کی ہے۔ اِس بارے میں وہ بالکل سچے ہیں اور اسماء الرجال میں کہیں یہ نہیں ملے گا کسی صحابی کے بارے میں کوئی تبصرہ اِس طرح کا کیونکہ اُنہیں مُصَدَّقْ سچا مانا گیا ہے اور فرمایا مَا اَقْرَأَکُمْ عَبْدُ اللّٰہِ فَاقْرَؤُوْہُ جو ابن ِمسعود رضی اللہ عنہ تمہیں سکھائیں قرآنِ پاک پڑھنے میں وہ تم پڑھو۔ وہ رسول اللہ ۖ کو پسند تھا بلکہ آپ نے اِن سے سنا بھی ہے۔ اور ایک دفعہ فرمایا کہ پڑھو؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ کو پڑھ کر سنائوں حالانکہ جناب پر تو خود اُترا ہے۔ تو اِرشاد فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں سنوں کسی اور سے۔ تو پھر انہوں نے سورة النساء پڑھی اور اُس میں جب یہ آیت آئی فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَہِیْدٍ کیسا ہوگا جب ہر اُمت میں سے ہم ایک گواہ لائیں گے وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلائِ شَہِیْدًا اور تمہیں اُن سب کا گواہ بنائیں گے تو کیسے ہوگا؟ یعنی قیامت کا دِن۔ جب یہ آیت آئی تو پھر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بس۔ اور یہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس سے ایک استدلال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی (نفلی) نیکی کو (مصلحت کی وجہ سے) روک دے تو یہ جائز ہے۔ کیونکہ پڑھنا نیکی ہے سننا نیکی ہے اور آپ نے فرمایا بس۔ تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی کسی کو نفلی نیکی سے یہ کہتا ہے کہ بس اَب رہنے دو تو یہ ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی ہمیشہ روزہ رکھنے سے منع فرمادیا بلکہ خفاء ہوگئے۔ تو اگر کوئی غلو کر رہا ہے نیکی میں تو اُسے بھی کنٹرول کرنا چاہیے اِعتدال پر لانا چاہیے۔ اس میں گناہ گار نہیں ہوگا۔ یہ الزام اُس پر نہیں لگایا جاسکتا کہ نیکی سے منع کیا ہے اِس نے۔ کیونکہ وہ غلو کررہا تھا، جتنی بتائی نہیں گئی وہ اُس میں حد سے آگے جارہا ہے اِس لیے اُس کو روکا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں اِن حضرات کا ساتھ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعاء ...........................